کیا آپ ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ تناول فرماتے ہیں؟ یہ سوال سننے میں تو عجیب سا لگتا ہے تاہم ماہرین نے حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص مختلف غذائیں کھانے کے ساتھ ساتھ کریڈٹ کارڈ بھی کھا رہا ہے۔
عالمی ادارہ ماحولیات ڈبلیو ڈبلیو ایف نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی ہے جس میں انہوں نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ ان کی غذا میں پلاسٹک کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے اور وہ تقریباً ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک کھا رہے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر انسان ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھا رہا ہے اور یہ مقدار ایک کریڈٹ کارڈ جتنی ہے۔
تحقیق کے مطابق ہر انسان سال میں کم از کم 1 لاکھ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) کھا رہا ہے جو اس کی غذا میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ مقدار ماہانہ 21 گرام اور سالانہ 250 گرام بنتی ہے۔
لیکن یہ پلاسٹک کہاں سے آرہا ہے؟
تحقیق کے مطابق اس وقت ہماری زمین پر استعمال ہونے والے پلاسٹک میں سے 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں جارہا ہے۔
ان میں پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات بھی ہوتے ہیں جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔ یہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔
زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔
بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔
نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔