تازہ ترین

آئی ایم ایف کا پاکستان کو سخت مالیاتی نظم و ضبط یقینی بنانے کا مشورہ

ریاض: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سخت...

اسحاق ڈار ڈپٹی وزیراعظم مقرر

وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کر دیا...

جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر ہائیکورٹ کا اعلامیہ جاری

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی...

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب، صدر اسلامی ترقیاتی بینک کی ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوسرے...

شہریت کا متنازع قانون : بھارت میں احتجاج کے نت نئے طریقے

نئی دہلی : بھارت کے مختلف شہروں میں شہریت کے متنازعہ قانون کیخلاف مظاہروں کا سلسلہ تاحال جاری ہے، روز بروز مظاہروں میں تیزی آرہی ہے، اب تک پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے درجنوں مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔

پولیس کی مظاہرین پر بربریت کی ویڈیوز بھی وائرل ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے پورے ملک میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پابندیوں اور انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے باجود لوگ پھر بھی جمع ہوتے ہیں۔

مظاہرین حکومت کو یہ اقدام واپس لینے کیلئے احتجاج کے نت نئے طریقے اختیار کررہے ہیں, اس حوالے سے نئی دہلی میں جامعہ یونیورسٹی شاہین باغ، انڈیا گیٹ پر طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور معروف پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے پڑھی۔

اس کے علاوہ شہریت بل مخالفین اپنے اپنے طور پر اور انفرادی حیثیت میں بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق سماجی کارکنان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں جو اس تحریک کی بڑھ چڑھ کرحمایت کر رہے ہیں، ان میں وہ ڈاکٹر، وکلا، فزیوتھراپسٹ اور آن لائن ایکٹیویسٹ شامل ہیں۔

نئی دہلی کی رہائشی ایک نوجوان تھراپسٹ نیہا تریپاٹھی کا کہنا ہے کہ ہم سب سڑکوں پر نہیں آ سکتے، اس لیے مظاہرین کو مفت طبی مدد فراہم کرتی ہوں، یہ اپنا حصہ ڈالنے کا میرا کا اپنا طریقہ ہے۔

میں نے مظاہروں میں حصہ لینے کی کوشش کی لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ بہت ڈراؤنا تجربہ تھا، میں بس ہر اس شخص کی مدد کرنا چاہتی ہوں جو اس خوف اور پریشانی سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے اپنا ای میل ایڈرس اپنے انسٹاگرام پر اس لیے ڈالا تاکہ وہ پریشان لوگوں کو مدد فراہم کرسکیں۔

اس کے علاوہ دہلی میں مقیم انجلی سنگلا ایک سائیکو تھراپسٹ ہیں ان کا کہنا ہے کہ میں مختلف شہروں سے ہو کر آئی ہوں اس لیے میں مظاہروں میں حصہ نہیں لے سکی لیکن میں فون پر بہت سے لوگوں سے بات کر کے مدد فراہم کرتی رہی ہوں اور اپنی دیکھ بھال کی ضرورت پر زور دیتی رہی ہوں۔

کچھ ڈاکٹرز نے بھی اس تحریک میں اپنے طریقے سے حصہ ڈالا ہے وہ احتجاج کی جگہوں اور اپنے کلینکس میں مفت طبی مدد فراہم کر رہے ہیں۔

اسی طرح کی ایک فہرست وکلا کی بھی ہے جو زیرِ حراست لوگوں کو مفت قانونی مشورے دیتے ہیں ان میں سے کچھ آگہی کے لیے قانون اور اس کے اثرات کے متعلق آن لائن مواد بھی ڈال رہے ہیں۔

Comments

- Advertisement -