کراچی: کرپشن، کک بیکس اور منی لانڈرنگ سے کارپیٹنگ تک چوہدری شوگر ملز کے ذریعے کیا کیا گل کھلائے گئے، نئے تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے گئے۔
تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں چوہدری شوگر ملز سے متعلق کرپشن کے نئے انکشافات ہوئے ہیں، چوہدری شوگر مل کے گورکھ دھندے نے حدیبیہ ملز اسکینڈل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
ذرایع نے انکشاف کیا ہے کہ چوہدری شوگر مل لگاتے وقت شریف فیملی کے پاس ساڑھے 6 ارب روپے کی مل لگانے کی حیثیت نہیں تھی، کرپشن، کک بیکس اور منی لانڈرنگ سے چوہدری شوگر مل لگائی گئی، شریف فیملی کی کرپشن میں بڑے کاروباری اور با رسوخ افراد کا گٹھ جوڑ تھا، چینی کی مل کے لیے چند بڑے بینکر، قالین بیچنے والوں کا گٹھ جوڑ تھا، چوہدری شوگر ملز کو قالین فروخت کرنے والی کمپنی نے مشکوک ادائیگیاں کیں۔
نیب ذرایع نے بتایا کہ قالین فروخت کرنے والے کیا چینی بھی فروخت کر رہے تھے؟ پنجاب کارپٹ نے چوہدری شوگر مل کو مشکوک ادائیگیاں کیں، پنجاب کارپٹ نے 1991 میں سرکاری بینکوں سے 31 ملین کا قرضہ لیا، 1992 میں 64 ملین کا قرضہ لیا، تمام قرضہ معاف کرا دیا گیا، پنجاب کارپٹ نے 1992 میں ایف بی آر ریٹرن میں بینک بیلنس سوا 2 لاکھ بتایا، سوا 2 لاکھ بینک بیلنس والی کمپنی نے شوگر مل کو سوا کروڑ کا قرضہ کیسے دیا، یہ قرضے نواز شریف کے اثر و رسوخ کی وجہ سے دیے گئے، خواجہ خالد سلطان اس کمپنی کے سربراہ تھے۔
چوہدری شوگر مل میں شریف خاندان کی کرپشن کی غضب کہانی منکشف
نیب ذرایع نے مزید بتایا کہ چوہدری شوگر مل بننے کے بعد منی لانڈرنگ کا سلسلہ بڑھ گیا، 1999 میں غیر ملکی سعید سیف بن جابر نے شوگر مل کے 310 ملین کے شیئرز خریدے، 2001 میں غیر ملکی ہانی احمد نے 80 ملین روپے کے برابر ڈالرز بھجوائے، اور مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز کے 37 فی صد شیئرز خریدے، پنجاب کارپٹ، ای ایس ایس انٹرپرائز بظاہر شریف فیملی کی فرنٹ کمپنیاں تھیں، 2007 مہران رمضان کو چوہدری شوگر ملز میں ضم کیا گیا، کمپنی کے 42 فی صد حصص منتقل کیے گئے تو ایس ای سی پی میں درخواست دائر کی گئی، کمپنی میں جو رقم سرمایہ کاری کے لیے ڈالی گئی وہ پیڈ اپ کیپٹل کا 42 فی صد ہے۔
بتایا گیا کہ چوہدری شوگر مل میں اپنے ہی رشتہ داروں کے ساتھ فراڈ بھی کیا گیا، 2007 میں سراج خاندان نے ایس ای سی پی کو اس سلسلے میں شکایت کی تھی۔