اشتہار

دریا پر جھولتی بھورو کی عقیدت، ناؤ میں بولتا سلیمان کا یقین!

اشتہار

حیرت انگیز

سندھ میں تہذیب و تمدن، مختلف رسم و رواج اور یہاں کی ثقافت کے مستند حوالے چھانیے اور تاریخ کے اوراق الٹیے تو معلوم ہوگا کہ وہ برادریاں جو ماہی گیری اور دریائوں کے ذریعے نقل وحمل اور تجارت سے منسلک تھیں، انھیں موہانا اور میر بار کہا جاتا تھا۔

یہ بھی ایک موہانا کا تذکرہ ہے جو معروف محقق، معمار اور شہری امور کے ماہر عارف حسن کی کتاب "بے ضابطہ انقلاب” سے لیا گیا ہے۔

1968 میں عارف حسن نے بھورو نامی موہانا کی کشتی میں سفر کیا تھا۔ کئی سال بعد دوبارہ اسی جگہ گئے تو معلوم ہوا کہ بھورو دنیا سے رخصت ہوچکا ہے۔ تب وہ کسی طرح اس کے بیٹے سلیمان تک پہنچے اور اس کے ساتھ اسی کشتی میں دوبارہ سفر کیا۔

- Advertisement -

عارف حسن لکھتے ہیں، جب ہم نے سفر کا آغاز کیا تو سلیمان نے ایک قرآنی دعا پڑھی اور دریا کے مسافروں کے راہ نما خواجہ خضر کو، جن کے تحفظ کے مسلمان موہانا اپنے سفر میں خواہش مند ہوتے ہیں، چاول اور شکر کا "چڑھاوا” چڑھایا۔

انھوں نے لکھا ہے کہ اس کے باپ بھورو نے بھی قرآنی دعا پڑھی تھی اور اسی طرح کا "چڑھاوا” چڑھایا تھا، لیکن اس کا "چڑھاوا” پانی کے ہندو دیوتا، دریا لال کے نام تھا۔

عارف حسن نے لکھا ہے، میں نے اُس سے پوچھا تھا کہ وہ ہندو ہے یا مسلمان ہے، اُس نے جواب دیا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔

پھر تم دریا لال کو چڑھاوا کیوں چڑھاتے ہو؟ میں نے اس سے پوچھا تھا۔ اس نے جواب دیا منزل تو ایک ہے، لیکن راہیں بہت سی ہیں، میں تمام راہوں پر چلنے کی کوشش کرتا ہوں، کیوں کہ یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

میں نے سلیمان کو یہ واقعہ سنایا۔ اس نے کہا، ازراہِ کرم میرے باپ کو معاف کر دیجیے وہ ایک جاہل آدمی تھا، تعلیم یافتہ اور باشعور نہیں تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں