تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

لاہور ہائی کورٹ نے نیب کو شہباز شریف کی گرفتاری سے روک دیا

لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی عبوری ضمانت17 جون منظور کرلی اور نیب کو شہباز شریف کو گرفتار کرنے سے روک دیا۔

تفصیلات کے مطابق لاہورہائی کورٹ میں اپوزیشن لیڈر  شہبازشریف کی درخواست ضمانت پرسماعت ہوئی ، جسٹس طارق عباسی کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے سماعت کی۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے شہباز شریف کو نہ روکے جانے کی ہدایت کی جس کے بعد وہ عدالت پہنچے جبکہ نیب کی ٹیم بھی ہائی کورٹ کے گیٹ پر موجود تھی۔

سماعت میں عدالت نے استفسارکیا درخواست گزار شہباز شریف کہاں ہیں ، وکیل نے بتایا شہباز شریف کمرہ عدالت میں موجود ہیں اور کینسر کے مریض ہیں ، عدالت نے پھر  استفسار کیا کیا آپ کو گرفتاری کا خدشہ ہے ، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جو ریکارڈ مانگا گیا وہ دے دیا،پھر بھی نیب گرفتاری کیلئے بے تاب ہے۔

عدالت نے سوال کیا شہباز شریف کے خلاف کیس کس اسٹیج پر ہے،وکیل شہباز شریف امجد پرویز نے بتایا کہ کیس انویسٹی گیشن کی اسٹیج پر ہے ، جس پر عدالت نے کہا نیب والے کہاں ہیں روسٹرم پر آئیں۔

عدالت نے استفسار کیا کیا نیب شہباز شریف کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتاہے تو وکیل نیب فیصل بخاری نے کہا نیب شہبازشریف کی ضمانت کی  مخالفت کرےگا، شہباز شریف کو 5 اکتوبر 2018 کو صاف پانی کیس میں بلایا گیا، دوران ریمانڈشہباز شریف کورمضان شوگرمل میں بھی گرفتارکیاگیا۔

وکیل شہباز شریف نے کہا نیب 63 دن کے ریمانڈ میں تفتیش کرتی رہی، شہبازشریف کو2جون کیلئےطلب کیا گیا مگروارنٹ28مئی کےتھے۔

مزید پڑھیں : نیب کا شہباز شریف کو عدالت جانے سے قبل گرفتار کرنے کا فیصلہ

عدالت نے استفسار کیا جب وارنٹ پہلےنکلے تو 2 جون کوکیوں بلایا ،وکیل نیب نے بتایا کہ جب نیب کےپاس گرفتاری کاموادآیاتب شہبازشریف کےوارنٹ جاری کئے گئے۔

لاہور ہائیکورٹ نے نیب کو شہباز شریف کو گرفتار کرنے سے روک دیا اور شہباز شریف کی عبوری ضمانت17 جون منظور کرتے ہوئے 5لاکھ روپےکے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے 5 لاکھ کےضمانتی مچلکے ڈپٹی رجسٹرارجوڈیشل کےپاس جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر نیب سے جواب بھی طلب کر لیا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو عدالت جانے سے قبل گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور کہا شہباز شریف کی گرفتاری مقصود ہے ، لاہور ریفرنس دائر کرنے کیلئے وقت کم ہے ، شہباز شریف سے اہم معاملے پرتحقیقات کرنی ہیں۔

یاد رہے شہبازشریف آمدن سےزائد اثاثہ جات کیس میں گزشتہ روز نیب میں پیش نہیں ہوئےتھے اور نمائندے کے ذریعے جواب بھجوا دیا تھا، جواب میں کہا گیا تھا انہتر سال عمر ہے اور کینسر کا مریض ہوں، کورونا خدشات کے باعث پیش نہیں ہوسکتا، ویڈیو لنک، اسکائپ کے ذریعے پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے۔

جس کے بعد نیب کی جانب سے شہباز شریف کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے گئے تاہم شہباز شریف کو گرفتار نہ کر سکے۔

خیال رہے شہباز شریف نے ہائیکورٹ میں ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواست دائر کررکھی ہے، درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ 1972 میں انہوں نے بطور تاجر کام شروع کیا کیا وہ ایگریکلچر شوگر اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے کاروبار سے منسلک رہے ہیں ا1988 میں عملی سیاست میں قدم رکھا، نیب نے بدنیتی کی بنیاد پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنایا ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا موجودہ حکومت کے سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے نیب نے انکوائری شروع کر رکھی ہے نیب کی جانب سے لگائے جانے والے تمام الزامات عمومی نوعیت کے ہیں 2018 میں بھی اسی کیس میں گرفتار کیا گیا کیا تھا دوران حراست میں نے نیب کے ساتھ بھرپور تعاون کیا مگر نیب نے اختیارات کے ناجائز استعمال کا کا ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا۔

شہباز شریف نے کہا تھا کہ نیب ایسے کیس اپنے اختیار کا استعمال نہیں کرسکتا جس میں کوئی ثبوت نہ ہو جب سے عملی سیاست میں قدم رکھا ہے اپنے تمام اثاثے گوشواروں میں ظاہر کیے ہیں منی لانڈرنگ کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔

درخواست گزار کے مطابق نیب اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت انکوائری نہیں کر سکتا . اثاثوں کے حوالے سے تمام کاغذات پہلے ہی نیب کے قبضے میں ہیں تاہم نیب کی جانب سے ایک مرتبہ پھر گرفتار کا خدشہ ہے اس لیے عبوری ضمانت منظور کی جائے۔

Comments

- Advertisement -
عابد خان
عابد خان
عابد خان اے آروائی نیوز سے وابستہ صحافی ہیں اور عدالتوں سے متعلق رپورٹنگ میں مہارت کے حامل ہیں