واشنگٹن: امریکی صدر جوبائیڈن نے میانمار میں فوجی بغاوت اور آنگ سان سوچی کی گرفتاری کے بعد فوجی قیادت کو خبردار کرتے ہوئے دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دے دیا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے جنوب مشرق میں واقع ایشیائی ملک میانمار میں اقتدار پر فوجی قبضے اور برسراقتدار جماعت کی رہنما آنگ سان سوچی کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’فوجی بغاوت، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر براہ راست حملہ ہے، ایسے حملے ناقابلِ برداشت ہیں، اگر میانمار میں جمہوریت کو بحال نہ کیا گیا تو دوبارہ پابندیاں عائدکی جائیں گی‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو اس وقت میانمار کی فوج پر دباؤ ڈال کر اقتدار سے قبضہ ختم کروانا چاہیے اس کے ساتھ ہی گرفتار افراد کی رہائی کے لیے بھی اقدامات کرنا چاہیں۔
مزید پڑھیں: میانمار میں فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا، آنگ سان سوچی گرفتار
یہ بھی پڑھیں: میانمار میں فوج کا اقتدار پر قبضہ، امریکا اور اقوام متحدہ کا رد عمل آ گیا
واضح رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے 2016 میں جمہوریت کی بحالی کے بعد میانمار پر عائد ہونے والی پابندیاں ختم کردیں تھیں، جس کے بعد امریکی کمپنیوں اور تاجروں نے میانمار کی کمپنیوں کے ساتھ لین دین شروع کردی تھی۔
اس سے قبل ان پابندیوں کے تحت کسی بھی قسم کی خرید و فروخت ممنوع تھی جبکہ یاقوت سمیت قیمتی پتھروں کی درآمدات کے عمل کو بھی ختم کردیا گیا تھا۔
جوبائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ فوجی آمریت کے بعد ہم ان پابندیوں پر نظر ثانی کرکے فوری کارروائی کرسکتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ میانمار کی صورت حال کے بعد جوبائیڈن انتظامیہ نے دنیا بھر میں اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ رابطہ کر کے صورت حال پر مشاورت بھی کی ہے۔