واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی اہداف پورے ہو گئے، افغانستان دنیا میں دہشت گردی کا مرکز نہیں رہا۔
تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس میں کہا افغانستان میں امریکا کے اہداف پورے ہو گئے، اسامہ بن لادن کی ہلاکت ساتھ ہی مشن مکمل ہوگیا تھا، افغانستان دنیا میں اب دہشت گردی کا مرکز نہیں رہا۔
انھوں نے کہا امریکا کی ایک اور نسل کو افغانستان نہیں بھیجوں گا، 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجی واپس آ جائیں گے، تاہم امریکا امن عمل کی حمایت اور افغان فورسز کی مدد جاری رکھے گا۔
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ طالبان کا مکمل افغانستان پر کنٹرول مشکل ہے، ہمارا کام ختم ہو گیا، اب افغان عوام کا حق ہے وہ جسے منتخب کریں، اُن پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط نہیں کر سکتے۔
امریکی صدر کا 31 اگست تک افغان جنگ ختم کرنے کا اعلان
واضح رہے کہ امریکی فورسز کے انخلا کے ساتھ طالبان نے تیزی کے ساتھ افغانستان کے اضلاع پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے، آج ماسکو میں موجود طالبان وفد نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان افغانستان پر قبضے کے قریب پہنچ گئے ہیں، اور 85 فی صد ملک پر قبضہ کیا جا چکا ہے۔
وفد نے دعویٰ کیا کہ وہ 398 میں سے 250 اضلاع میں حکومت بنا چکے ہیں، طالبان نے ایران کے ساتھ سرحدی گزرگاہ اسلام قلع بھی فتح کر لیا ہے، سو سے زائد افغان فوجی اہل کار چیک پوسٹ چھوڑ کر ایران بھاگ گئے۔
ہرات میں بھی جنگجوؤں نے پیش قدمی کی، ایک کے بعد ایک ضلعے میں داخل ہو رہے ہیں، جب کہ افغان اہل کار ہتھیار ڈال کر فرار یا طالبان کے ماتحت ہونے لگے ہیں، ترکمانستان کی سرحد پر بھی طالبان کا کنٹرول قائم ہو گیا ہے، تاجکستان کی سرحدی گزرگاہ پر طالبان کے جھنڈے کے لہرانے کی فوٹیج بھی سامنے آ چکی ہے۔
افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر کنٹرول حاصل کرلیا، طالبان کا دعویٰ
طالبان ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ اضلاع کا کنٹرول رضاکارانہ مل رہا ہے، افغان فوج خود ہتھیار ڈال رہی ہے۔
یاد رہے کہ ایران کی میزبانی میں انٹرا افغان ڈائیلاگ میں طالبان نے یقین دلایا تھا کہ کابل پر بھی بزور طاقت قبضہ نہیں کریں گے، دوسری طرف طالبان نے افغان فضائیہ کے پائلٹس کی ٹارگٹ کلنگ شروع کر دی ہے، چند دن میں 7 پائلٹ ہلاک کیے جا چکے ہیں، طالبان کا کہنا ہے یہ پائلٹ اپنے ہی لوگوں پر بم گراتے ہیں، اس لیے ٹارگٹ کر رہے ہیں۔
ادھر وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دوحہ مذاکرات کے بعد طالبان بدل چکے ہیں، طالبان کا لباس سادہ لیکن وہ ذہین اور قابل لوگ ہیں، پاکستان کو اس بدلتی صورت حال کے لیے تیار ہونا پڑے گا، اشرف غنی طالبان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں لیکن طالبان کو اشرف غنی پر اعتراضات ہیں۔
شاہ محمود نے کہا بھارت افغان امن عمل خراب کر رہا ہے، بھارت چاہتا ہے پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام رہے، ہم اکیلے افغانستان کے ٹھیکے دار نہیں، افغانستان کی صورت حال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا جائز نہیں، پاکستان مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔