1857ء میں جب ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی رعایا نے انگریزوں سے باقاعدہ لڑائی کا آغاز کیا تو اسے تاجِ برطانیہ سے بغاوت، سرکشی اور بدعہدی قرار دیا گیا اور بغاوت کو کچلنے کے لیے بے دریغ قتلِ عام شروع کردیا گیا۔
گرفتار ہوجانے والے آزادی کے متوالوں کو ہنگامہ آرائی اور بلوہ کرنے کے الزام میں بدترین تشدّد، قید و بند اور جلاوطنی جھیلنا پڑی۔ انھیں پھانسیاں دی گئیں اور ‘باغی قیادت’ کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے توپ دَم کیا گیا۔ غدر میں کتنے ہی لوگ مارے گئے جن میں نابغۂ روزگار شخصیات، عظیم و نادر ہستیاں بھی شامل تھیں۔
اس تمہید کے ساتھ شیخ امام بخش صہبائی کا تعارف پڑھ لیجیے جس کے بعد ہم موصوف اور ان کے خاندان پر بروزِ غدر ٹوٹ پڑنے والی قیامت کا تذکرہ کریں گے۔
شیخ امام بخش صہبائی انیسویں صدی کے فارسی زبان و ادب کے ایک قابلِ قدر عالم، شارح اور شاعر تھے۔ عربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ دہلی ان کا وطن تھا۔ ان کی درست تاریخ و سنِ پیدائش تو کسی کو معلوم نہیں، لیکن غالب قیاس یہی ہے کہ انھوں نے 1805ء میں پیدا ہوئے تھے۔ صہبائی زندگی کی 54 (چوّن) بہاریں دیکھ سکے اور غدر میں ابتلا کے بعد فریبِ ہستی سے واقف ہوئے۔
صہبائی صاحب کے دو بیٹے محمد عبدُالعزیز اور عبدُالکریم اپنے والد کے تابع فرمان اور مذہب پسند بھی تھے، شوق و ذوقِ علم اور سخن فہمی تو ورثے میں ملی تھی۔ یہ دونوں بھی عزیز اور سوز کے تخلّص سے شاعر مشہور تھے۔
شیخ امام بخش صہبائی نے گو کہ مختصر عمر پائی، مگر فارسی میں نظم و نثر کی لگ بھگ تیس اور اردو زبان میں تین کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی کتب نایاب ہیں اور ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
ان کے زمانے میں اگرچہ فارسی کی جگہ اردو لے چکی تھی، لیکن صہبائی نے نثر اور نظم کے لیے فارسی ہی کو اپنایا۔ انھیں اس زبان میں کمال حاصل تھا اور وہ اپنی فارسی دانی کے لیے مشہور تھے۔ انھیں دہلی کالج میں فارسی کا مدرّس مقرر کیا گیا تھا۔
افسوس کہ اس نادرِ روزگار کا انجام بڑا دردناک ہوا۔ تذکروں میں آیا ہے کہ غدر کے موقع پر ستمبر میں انگریزوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور اپنے 21 اعزّہ سمیت بے دردی سے قتل کیے گئے۔
رام بابو سکسینہ کی مشہور اور مستند کتاب تاریخِ ادبِ اردو کے دوسرے حصّے میں ان کا ذکر موجود ہے۔ رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
’’صہبائی قدیم دلّی کالج میں فارسی اور عربی کے پروفیسر، بہت روشن خیال اور اخلاقی جرأت کے آدمی تھے۔ فارسی میں ان کو کمال حاصل تھا اور اس زمانے میں جب کہ فارسی کا دور دورہ تھا ایک خاص عزّت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور ان کی قابلیت اور شہرت کا طلبا کے دل پر بڑا اثر تھا۔ فنِ شعر میں استاد مشہور تھے اور قلعہ کے اکثر شاہ زادے اور متوسلین ان سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ متعدد کتابیں ان سے یادگار ہیں۔ زمانۂ غدر میں مارے گئے اور ان کا مکان کھود کر زمین کے برابر کر دیا گیا۔‘‘
صہبائی کے احباب و رفقا میں مولانا فضلِ حق خیر آبادی، مفتی صدر الدّین خان آزردہ، سر سیّد احمد خان، ذوق، مومن اور غالب شامل تھے اور انھیں بہادر شاہ ظفر کا تقرّب بھی حاصل تھا۔
مشہور ہے کہ ان کے شاگردوں میں غیر مسلم نمایاں تعداد میں تھے اور ان کی شہادت کو دو دہائیاں گزرنے کے بعد جب ان کے ایک ہندو شاگرد منشی دین دیال نے ان کے علمی اثاثے کی ترتیب و تدوین کا اہتمام کرنا چاہا تو ملال ہوا کہ ان کی بعض تصانیف کا کوئی سراغ سراغ نہ مل سکا اور نہ ہی ان کے مکمل کوائف اور زندگی کے جامع حالات اکٹھے کیے جاسکے۔ جتنی کتابیں مل سکیں انھیں تین جلدوں میں زیورِ طبع سے آراستہ کردیا گیا۔
امام بخش صہبائیؔ دہلوی سے سَر سیّد احمد خاں نے اپنی مشہور کتاب ’’آثارُ الصّنادید‘‘ کی ترتیب میں مدد لی تھی جس کا اعتراف انھوں نے اپنی کتاب میں تفصیل سے کیا ہے۔ غالبؔ نے بھی فارسی کے کلام میں صہبائی کا نام لیا ہے۔
امام بخش صہبائیؔ کو صاحب طرز انشا پرداز اور نکتہ بیں محقق کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ وہ علمِ عروض و قافیہ میں ماہر تھے اور اُس دور کے تمام تذکرہ نگاروں اور ادبا نے ان کی اُستادی اور قادرُ الکلامی کا لوہا مانا ہے۔
صہبائی اور ان کے خاندان کے 21 افراد کو راج گھاٹ (نئی دہلی) میں جمنا کنارے گولیاں مار کر شہید کیا گیا تھا۔
مولانا صہبائی کے بھانجے مولانا قادر علی بیان کرتے ہیں: ’’میں صبح کی نماز اپنے ماموں مولانا صہبائیؔ کے ساتھ کٹرہ مہر پرور کی مسجد میں پڑھ رہا تھا کہ گورے دَن دَن کرتے آ پہنچے۔ پہلی رکعت تھی کہ امام کے صافے سے ہماری مشکیں کس لی گئیں۔پھانسیوں کی بجائے باغی گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔ مسلح سپاہیوں نے اپنی بندوقیں تیارکیں۔ ہم تیس چالیس آدمی ان کے سامنے کھڑے تھے کہ ایک مسلمان افسر نے ہم سے آکر کہا کہ موت تمہارے سَر پر ہے گولیاں تمہارے سامنے ہیں اور دریا تمہاری پشت پر ہے۔تم میں جو لوگ تیرنا جانتے ہیں وہ دریا میں کود پڑیں۔ میں بہت اچھا تیراک تھا، مگر ماموں صاحب یعنی مولانا صہبائیؔ اور ان کے صاحب زادے مولانا سوزؔ تیرنا نہیں جانتے تھے۔ اس لیے دل نے گوارا نہ کیا کہ ان کو چھوڑ کر اپنی جان بچاؤں، لیکن ماموں صاحب نے مجھے اشارہ کیا اس لیے میں دریا میں کود پڑا۔ پچاس یا ساٹھ گز گیا ہوں گا کہ گولیوں کی آوازیں میرے کانوں میں آئیں اور صف بستہ لوگ گر کر مر گئے۔‘‘ (1857ء پس منظر و پیش منظر سے)
اس الم ناک واقعے پر اکبرالٰہ آبادی کہتے ہیں:
نوجوانوں کو ہوئیں پھانسیاں بے جرم و قصور
مار دیں گولیاں پایا جسے کچھ زور آور
وہی صہبائی جو تھے صاحبِ قولِ فیصل
ایک ہی ساتھ ہوئے قتل پدر اور پسَر