ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی تحریک اور عوام میں تہذیب اور ثقافت کے ساتھ مذہبی اور دینی آزادی کا تصور اجاگر کرنے کی کوششوں میں علمائے کرام نے کلیدی کردار ادا کیا۔
ہندوستان کی مذہبی شخصیات نے اس زمانے کے سرکردہ سیاسی اور سماجی راہ نماؤں کے ساتھ مل کر عوام کو طوقِ غلامی سے نجات حاصل کرنے پر آمادہ کیا۔ علما نے عبادت گاہوں میں برسرِ منبر اور دینی اجتماعات میں مسلمانوں کے قلب و ذہن کو بیدار کرنے کی سعی کی۔
یہ مذہبی راہ نما اور صوفیا مساجد اور خانقاہوں تک محدود نہیں رہے بلکہ ہندوستان کے کونے کونے میں جاکر مسلمانوں سے ملاقاتیں کرکے انھیں آزادی کا مطلب سمجھایا اور بعد میں یہی بیداری تحریکِ پاکستان کی کام یابی کا سبب بنی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ برِّصغیر کے علما اور مختلف فکر اور خانقاہوں کے مشائخ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے بعد مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے حصول کی کوششوں میں قائدِاعظم محمد علی جناح اور دیگر سیاسی راہ نماؤں کا بھرپور ساتھ دیا۔ یہ شخصیات قائدِاعظم محمد علی جناح کا دست و بازو تھیں۔ یہاں ہم ان میں سے چند مذہبی اور دینی شخصیات کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
پیر جماعت علی شاہ: آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ و مشاورت میں پیش پیش رہے۔ آپ مسلم لیگ اور قائدِاعظمؒ پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ وائسرائے ہند کے نام تار میں آپ نے فرمایا ’’مسلم لیگ‘‘ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور قائدِاعظم محمد علی جناح اسلامیانِ ہند کے واحد لیڈر ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی نام زدگی مسلم لیگ اور قائدِاعظم کا کام ہے۔ طول و عرضِ ہندوستان میں میرے لاکھوں مرید مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔
مولانا عبدالحق بدایونی: تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل مولانا صاحب نے لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کی بھرپور تائید کی اور اپنے رفقا سمیت قراردادِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانوی ہند میں انتخابات کے موقع پر آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے یو پی، بہار،اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا اس میں مولانا بدایونی شامل تھے۔
شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی: تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والوں میں ایک نام شاہ صاحب کا بھی ہے جنھوں نے قائدِاعظم سے کئی ملاقاتیں کیں جس میں اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے دنیا بھر میں اہم شخصیات اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالے سے تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں پر مفید بات چیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے کہنے پر آپ نے اپنے بیرونِ ممالک دوروں میں عالمی راہ نماؤں کو پاکستان کے قیام کی کوششوں کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔
علّامہ سید احمد سعید کاظمی: ہندوستان کے علما میں ایک نام کاظمی صاحب کا ہے جنھوں نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جس میں لاکھوں لوگ اور ہزاروں علمائے کرام شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت یقینی بنائی اور کانفرنس میں تشریف لائے جس سے اس وقت ہند بھر میں ان کے ماننے والوں تک بھی تحریکِ پاکستان کا مقصد پہنچا اور اسے تقویت ملی۔ 27 اپریل 1946ء کو منعقدہ آل انڈیا سنی کانفرنس کو جدوجہدِ آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔
مجاہدِ ملّت مولانا عبدالستار خان نیازی: مولانا نیازی نے علامہ محمد اقبال کے حکم پر ’’مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک پاکستان کے لیے بہت کام کیا۔ آپ کی بانی پاکستان کے ساتھ خط و کتابت اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ قائدِاعظم نے آپ کے لیے فرمایا ’’جس قوم کے پاس نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان بنانے سے کون روک سکتا ہے۔‘‘
قائداعظم اور مسلم لیگ کے متوالوں اور آزادی کے لیے مر مٹنے کا جذبہ رکھنے والوں کی طویل فہرست میں پیشِ نظر یہ نام بھی نہایت معتبر ہیں اور یہ قابلِ احترام ہستیاں ہیں جنھوں نے ہر قسم تفریق اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کے طول و عرض میں بسے اپنے ارادت مندوں کو حصولِ پاکستان کے لیے ایک جھنڈے تلے جمع کیا۔ پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا کے علاوہ ان میں مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی شامل ہیں۔