سال 2020 میں دنیا بھر میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد پیدا ہونے والی معاشی صورتحال انتہائی تباہ کن تھی لیکن تقریباً دو سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد اس میں کچھ درجہ کمی آئی جس کے سبب عالمی سطح پر معیشت کو کچھ سہارا ملا۔
لیکن معیشت کا یہ استحکام بھی زیادہ دیر نہیں چل سکا اور آج دنیا کو روس اور یوکرین جنگ کی صورت میں نیا چیلنج درپیش ہے، جس کے برے اثرات ایک بار پھر مختلف ممالک کی معیشتوں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
دنیا بھرمیں توانائی کا بحران:
دنیا بھر میں متبادل ایندھن کی تلاش کا کام تیزی سے جاری ہے جو کہ وقت کا تقاضا بھی ہے کیونکہ اس وقت توانائی کے جو ذرائع روئے ارض پر اور زیر زمین موجود ہیں وہ تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور اگر ان کے متبادل تلاش نہ کیے گئے تو عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں شدید نوعیت کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
عالمی سطح پر توانائی یا ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور ان کا حصول ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے جو اس وقت پوری دنیا کو درپیش ہے اور صرف یورپی ممالک ہی نہیں جو ان حالات سے نمٹنے کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔
دنیا کے بیشتر ممالک اپنی اپنی بساط کے مطابق مختلف حمکت عملی اختیار کرتے ہوئے اس بحران پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہے ہیں۔
روس یوکرین جنگ ، یورپ میں گیس کی قلت :
روس یوکرین کی حالیہ جاری جنگ کے دوران روس کی جانب سے یورپ کو قدرتی گیس کی فراہمی میں کمی کردی گئی جس کے سبب یورپ میں گیس کی قیمت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوچکی ہے۔
اس لیے حالیہ تناظر میں توانائی کے ضیاع کو روکنا اور اس کا ذخیرہ کرنا یورپی ممالک کی حکومتوں کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔
مذکورہ صورتحال کے پیش نظر یورپی یونین نے حال ہی میں ایک منصوبے کے تحت موسم سرما سے قبل گیس کی کھپت میں 15 فیصد کمی لانے کا اعلان کیا ہے۔
اسی منصوبے کے تحت اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ یکم نومبر سے قبل یورپی ممالک میں قدرتی گیس کے ذخائر 80 فیصد تک بھر چکے ہوں۔
چین میں توانائی کا بحران:
اس کے علاوہ چین کو مختلف نوعیت کے توانائی بحران کا سامنا ہے، چین کو روس سے تیل اور گیس کی فراہمی تو متاثر نہیں ہوئی لیکن کورونا کی صورتحال، شدید گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے چین بھی مسائل کا شکار ہے، وہاں دریا خشک ہو رہے ہیں جس سے پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں بھی کمی واقع ہورہی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین نے سعودی عرب کے ساتھ توانائی کے شعبے میں اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان اور چین کی نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن کے ڈائریکٹر ژانگ جیان ہوا نے ٹیلی کانفرنس کال میں گفتگو کی اور خام تیل کی منڈیوں میں طویل مدتی سپلائی کو مستحکم کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
اس کے علاوہ رواں سال جون میں ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے بھی آنے والے معاشی خطرات کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا اور مقتدر حلقوں نے اس معاملے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اس معاشی بحران کی حقیقت کی تصدیق بھی کی۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ توانائی کی قلت دور کرنے کے لئے باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر عالمی سطح پر مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ بنی نوع انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پیٹرولیم، گیس، بجلی اور ایندھن کے دیگر سستے اور متبادل ذرائع حاصل کیے جاسکیں۔
لہٰذا جب تک سستے اور متبادل ذرائع میسر نہیں ہوں گے اس وقت تک ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے اور گھمبیر صورت اختیار کرنے والے مسائل کا حل کسی بھی صورت ممکن نہیں ہوسکتا۔