اسلام آباد: ریکوڈک صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس نے اہم سوالات کے جوابات طلب کرلئے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ریکوڈ ک صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت وفاقی اور بلوچستان حکومت کے بین الاقوامی ماہرین نے عدالت کو معاہدے پر بریفنگ دی۔
غیر ملکی ماہر نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ریکوڈک منصوبے میں اس وقت 8 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ضرورت ہے، اگر پاکستان اور بلوچستان حکومت کو فائدہ حاصل کرنا ہے تو سرمایہ کاری بھی کرنی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے چیئرمین سینیٹ سے بڑا مطالبہ کردیا
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے غیرملکی ماہر سے سوال کیا کہ یعنی حکومت پاکستان اور بلوچستان کو 8 میں سے 4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا ہوگی؟ موجودہ سرمایہ کاری کتنے عرصے کے لیے ہے اور منافع کب سے ملے گا؟
غیر ملکی ماہر نے بتایا کہ ریکوڈک کے موجودہ معاہدے کے دو مرحلے ہیں، ریکوڈک معاہدے کا پہلا مرحلہ 5 سال کا ہے جبکہ منافع دوسرے مرحلے سے ملنا شروع ہوگا، پاکستان پانچ سال کے لیے 4.3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ موجودہ حالات میں ریکوڈک کا حالیہ معاہدہ بہترین ہے، کیا پاکستان نے بیرک گولڈ کمپنی کی مقابل کمپنی سے معاہدے کے لیے کوشش کی؟
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کہ کیا پاکستان 10 ارب ڈالر کے جرمانے کی تلوار لیے کسی اور کمپنی کے ساتھ ریکوڈک معاہدہ کرسکتا ہے؟
غیر ملکی ماہر نے کہا کہ بیرک گولڈ کمپنی کے پاس کان کنی کی مہارت ہے، اگر بیرک گولڈ کے پاس مہارت نہ ہوتی یا ان سے بہتر کوئی کمپنی ہوتی تو پاکستان معاہدہ کرسکتا تھا۔
پاکستان کے پبلک سیکٹر میں بیرک گولڈ کے سوا کسی کمپنی سے اتنا بہترین معاہدہ نہیں ہوسکتا، ریکوڈک میں موجود کان کی لائف 47 سال ہے، ریکوڈک معاہدے سے 400 ٹن تانبے کی سالانہ پیداوار ہوگی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ حکومت بلوچستان کو ریکوڈک معاہدے سے 40 سال میں ملنے والا کل منافع 32 ارب ڈالر ہوگا اس طرح حکومت بلوچستان کو ریکوڈک سے سالانہ 0.8 ارب ڈالر منافع ملے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس میں مالی نہیں قانونی معاملات دیکھ رہی ہے، بیرک گولڈ کمپنی کو سپریم کورٹ سے کیا یقین دہانی چاہیے؟ ریکوڈک سے نکلنے والی خام معدنیات کس ملک میں ریفائن ہوں گی؟ پاکستان کو ریکوڈک منصوبے سے کیا ملے گا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں پہلے بھی یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ ریکوڈک سے نکلنے والے سونے میں پاکستان کو حصہ نہیں ملتا اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکوڈک سے نکلی معدنیات کو بہترین پیشکش دینے والی کمپنی سے ریفائن ہوں گی۔
بعدازاں مقدمے کی سماعت کل آٹھ نومبر تک ملتوی کردی گئی۔