چیٹ جی پی ٹی مصنوعی ذہانت کا ایک ایسا ٹول ہے جس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ اسے گزشتہ سال ۳۰ نومبر کو متعارف کروایا گیا۔
یہ نیا ٹول ایسا مواد لکھ سکتا ہے جو بہت درست اور انسانی تحریر سے ملتا جلتا نظر آتا ہے، یہ نیا ٹول گوگل کے لیے خطرہ بن کر سامنے آیا ہے، جی میل کے بانی پال نے بھی کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ یہ ٹول گوگل کو دو سال میں برباد کر سکتا ہے۔
اگر آپ انٹرنیٹ پر چیٹ جی پی ٹی کے جائزے پڑھیں، تو لفظ “خطرہ” کا بار بار ذکر کیا جا رہا ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پروگرام تیزی سے انسانی دماغ کی نقل کر رہا ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون کے مطابق اس پروگرام کا تعلیم، ڈیجیٹل سیکیورٹی، کاروبار اور روزگار پر بھی اثرات پڑنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کمپنی کا نیا ٹول ’اے آئی کلاسیفائر‘ ایک لینگویج ماڈل ہے، جو ایک ہی موضوع پر انسانوں اور مصنوعی ذہانت کے استعمال سے لکھی گئی تحریروں کے ڈیٹاسیٹ کے موازنے میں ماہر ہے اور جس کا مقصد دونوں تحریروں میں فرق کرنا ہے۔
اوپن اے آئی نے عوامی طور پر تسلیم کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کا پتہ لگانے والا یہ ٹول ایک ہزار حروف سے کم ٹیکسٹ کے لیے کافی حد تک ناقابل اعتبار ہے اور کلاسیفائر کو دھوکہ دینے کے لیے مصنوعی ذہانت کے ذریعے لکھے ہوئے متن کو ایڈٹ کیا جا سکتا ہے۔
گوگل کو خطرہ۔۔!
بہت سے لوگ انٹرنیٹ پر معلومات اکھٹا کرنے کے لیے گوگل کا استعمال کرتے ہیں، لیکن کہا جارہا ہے کہ اگر یہ چیٹ جی پی ٹی کسی بھی غلطی کے بغیر صحیح جواب دینے لگا تولوگ اس ٹول کا ہی انتخاب کریں گے۔
جیٹ جی پی ٹی کو غلطیوں کو تسلیم کرنے کی تربیت بھی دی جارہی ہے، یہ پروگرام غلط فہمیوں کو درست کرتا ہے اور غیر متعلقہ سوالات کو رد بھی کرتا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی سے دنیا بھر میں ملازمتوں کیلئے بھی خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں، جیسے صحافت۔ اگر اس نئے سسٹم میں مزید بہتری آئی تو صحافیوں کی نوکریاں کم ہوں گی اور ممکن ہے ایک وقت آئے گا جب ان کی ضرورت نہ رہے کیونکہ ہر مضمون چیٹ بوٹس سے لکھا جائے گا۔
چیٹ بوٹس سے کاپی کرنے، اپنے ہوم ورک اور اسائنمنٹس میں پیسٹ کرنے کے علاوہ اور بھی بہت سے خدشات ہیں جو تعلیمی میدان میں خوف کا باعث بن رہے ہیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انسانی دماغ تیزی سے سکڑ رہا ہے، اس کی وجہ ٹیکنالوجی کی ترقی ہے، ہمیں بدلتے وقت کے ساتھ تیزی سے بدلنا ہوگا۔
یہ نئی ٹیکنالوجی طلباء کو سائبورگ (آدھا انسان اور آدھا مشین) میں بدل دے گی۔
چیٹ جی پی ٹی تقریباً 100 زبانوں میں دستیاب ہے لیکن یہ انگریزی میں سب سے زیادہ درست ہے۔
یہ سسٹم اوپن اے آئی نامی کمپنی نے 2015 میں سیم آلٹ مین اور ایلون مسک کے ذریعے تیار کیا تھا، تاہم ایلون مسک نے 2018 میں اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ اس چیٹ بوٹ کا استعمال سب کے لیے مفت ہوگا اور یہ ٹیسٹنگ اور ریسرچ کے دوران ہر کسی کے لیے دستیاب ہوگا۔