نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
فیونا انھیں اپنے اتنے قریب دیکھ کر اسپرنگ کی طرح اچھلی اور چلاتے ہوئے دوڑی: ’’بھاگوووو…‘‘ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ذرا ہی دیر میں وہ جبران اور دانیال سے بھی آگے نکل گئی۔
اچانک ان کی سماعتوں سے ایک قذاق کی چیخ سے مشابہ آواز ٹکرائی، وہ کہہ رہا تھا: ’’یہ ہمارے خزانے کے پیچھے جا رہے ہیں … پکڑو انھیں اور تختے پر لے آؤ۔‘‘
ایک اور قذاق چلایا: ’’یہ تختہ کیا ہے گدھے… ہمارا جہاز کہاں ہے؟‘‘
سارے کے سارے بحری ڈاکو اب ان تینوں کے پیچھے چیختے چلاتے اور تلواریں لہراتے دوڑ رہے تھے۔ دوڑے دوڑتے فیونا بولی: ’’واؤ زبردست … پہلے وائی کنگ اور اب یہ پائریٹس … جب ہم گھر لوٹیں گے تو جمی اور جیزے کو ان پھندوں کے بارے میں ضرور بتائیں گے۔‘‘
تینوں جھاڑیوں میں اندھا دھند بھاگتے چلے جا رہے تھے۔ سخت جھاڑیوں اور کانٹوں سے بچنا ممکن نہیں تھا اس لیے انھیں جا بہ جا خراشیں آ گئی تھیں۔ دوڑتے دوڑتے وہ ایک کھلی جگہ میں آ گئے۔ تینوں رک کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔ فیونا نے سانسوں کو قابو کرتے ہوئے کہا: ’’تم دونوں نے نوٹ کیا، یہ سب بالکل ایک ہی جیسے لگتے ہیں۔‘‘
جبران بولا: ’’میں پائریٹس کے متعلق پڑھا ہے، یہ عقل مند نہیں تھے، اس سے پہلے کہ وہ ہمیں پکڑ لیں کیوں نہ ہم کوئی چال چل کر ان سے چھٹکارا پا لیں، یہ سب بے وقوف ہیں اور مردہ بھی!‘‘
دانیال نے کہا کہ یہ لوگ بے وقوف ہو سکتے ہیں اور کسی زمانے میں یہ مرے بھی ہوں گے لیکن اب یہ زندہ ہیں اور ان کے ہاتھوں میں تیز دھار تلواریں بھی ہیں۔ دانیال سانس لینے رکا اور حیران ہو کر بولا: ’’ارے انھوں نے آنکھوں پر پٹیاں کیوں باندھ رکھی ہیں، اور یہ ارغ کیا چیز ہے، کیا واقعی بحری قذاق اسی قسم کی آوازیں نکالا کرتے تھے؟ میں تو سمجھا تھا کہ یہ صرف کارٹون اور فلموں میں ہوتا ہے۔‘‘
ان دونوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن فیونا اچانک بولی کہ انھیں جانا کس طرف ہے؟ یہ کہہ کر اس نے کلائی پر بندھی گڑھی پر نظر ڈالی، لیکن وہ سمندری پانی سے خراب ہو چکی تھی۔ جبران کی گھڑی واٹر پروف تھی، جس کے مطابق جیکس کی واپسی میں صرف پینتالیس منٹ رہ گئے تھے، اور وہ پک اپ پوائنٹ سے بھی بہت دور تھے۔ دانیال نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چلو اس سمت چلتے ہیں، وہ ڈھونڈ نہیں پائیں گے۔ لیکن فیونا نے کہا: ’’انھیں پتا ہے کہ ہم نے موتی حاصل کر لیا ہے، اور انھیں ایک ایسا منتر آتا ہے جس کے ذریعے وہ ہمیں ڈھونڈ نکال سکتے ہیں۔‘‘
دانیال نے پوچھا: ’’کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان کا خزانہ چرا لیا ہے؟‘‘
فیونا نے اثبات میں سر ہلایا۔ انھیں آوازیں سنائی دینے لگیں، فیونا نے دونوں کو اپنے پیچھے آنے کو کہا اور وہ ایک بار پھر جھاڑیوں کے درمیان دوڑنے لگے۔ وہ جتنا تیز دوڑ سکتے تھے، دوڑتے چلے جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے بحری ڈاکو چیختے اور نعرے لگاتے ہوئے آ رہے تھے۔ ’’پکڑو… ان بدمعاشوں کو… لے چلو انھیں تختے پر!‘‘
(جاری ہے…)

Comments