نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اینگس نے بات جاری رکھی: ’’مجھے سو فی صد یقین تو نہیں ہے لیکن ایک اجنبی میک ڈوگل کے بی اینڈ بی میں ٹھہرا ہوا ہے۔ ایلسے نے مجھے قصبے میں ہونے والے عجیب و غریب واقعات کے بارے میں بھی بتایا ہے، یہ وہی ڈریٹن اسٹیلے کر رہا ہے۔‘‘
جمی نے کہا: ’’ٹھیک ہے، اگر آپ کو اس پر شک ہے تو پھر ہمیں آپ سب کی حفاظت کرنی پڑے گی۔ جیک، یہاں اینگس پر ایک بار قاتلانہ حملہ بھی ہو چکا ہے، اس لیے جب بچے دیگر قیمتی پتھر لانے جائیں تو ہمیں یہاں ان کی حفاظت کے لیے موجود ہونا چاہیے۔ ڈریٹن کی مدد سے جادوگر پہلان کی طاقتیں بڑھتی جائیں گی۔‘‘
جیزے نے کہا کہ اسے بچوں کو ان کے گھروں تک پہنچانا ہے، جب کہ فیونا نے کہا کہ انھیں بھی گھر پر ایک محافظ کی ضرورت ہے۔ فیونا کو اچانک ایک بات یاد آ گئی تو مڑ کر انکل سے کہا: ’’آپ نے بتایا نہیں، میرے پاس کون سی تیسری جادوئی طاقت آ گئی ہے؟‘‘
یہ سن کر دانیال اور جبران بھی چونک اٹھے۔ دونوں مڑ کر اینگس کی طرف یوں دیکھنے لگے جیسے وہ کوئی جادوگر ہو، اور ابھی کوئی منتر پڑھ کر سب کو پتھر میں بدل دیں گے۔ خود فیونا کے ہاتھ پیر بھی سنسنانے لگے تھے، وہ جاننا چاہ رہی تھی کہ اب اس کے پاس کون سی جادوئی طاقت آ گئی ہے۔
اینگس نے ان کا انہماک دیکھ کر سرکھجایا اور پھر دھیرے سے بولے: ’’میں نے اس کے بارے میں کل رات ہی پڑھا ہے، اب تم جانوروں کے ساتھ باتیں کر سکتی ہو، تمھیں جانوروں کی بولیاں بھی سمجھ آئیں گی اب۔‘‘
’’انکل، یہ تو میں کر چکی ہوں، جب ہم آئس لینڈ میں تھے تو پفن پرندوں کے ساتھ میں نے گفتگو کی تھی۔‘‘ فیونا جلدی سے بولی۔
’’ارے وہ تو روشن پری اور میگنس نے تمھاری مدد کی تھی۔‘‘ دانیال نے اسے یاد دلایا تو فیونا جھینپ کر سر کھجانے لگی۔
اینگس نے کہا: ’’میں یہاں اپنے محافظوں جمی اور جیک کے ساتھ رہوں گا، جیزے تم تینوں کو گھر پہنچائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے جیک کو مخاطب کیا: ’’جب تم قلعے میں پہنچے تو وہاں کوئی غیر معمولی بات محسوس کی؟‘‘
’’قلعہ آذر …!‘‘جیک نے سوچ کر کہا: ’’کنگ کیگان اور اس کے خاندان کی روح کے علاوہ کچھ محسوس نہیں کیا۔‘‘
جبران چونک اٹھا: ’’روح… کیا قلعے میں روحیں بھی ہیں؟‘‘جیک نے بتایا کہ وہ کنگ کیگان اور ملکہ کو بہت اچھی طرح جانتا تھا، اور دونوں کو بہت چاہتا بھی تھا، اس لیے قلعے کی دیواروں میں ان کی روحیں محسوس کیں۔ جبران نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: ’’میں سمجھ گیا، چترال میں ہمارے پاس ایک گائے تھی، وہ صنوبر کے نیچھے کھڑی رہتی تھی۔ جب وہ مر گئی تو میں جب بھی اس درخت کے پاس جاتا تھا تو مجھے وہ گائے یاد آ جاتی تھی، اور مجھے ایک لمحے کے لیے محسوس ہوتا تھا کہ وہ گائے ابھی بھی درخت کے نیچے کھڑی گردن ہلا رہی ہے اور میں اس کی گردن میں بندھی گھنٹی کی آواز بھی سنتا تھا!‘‘
’’بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ جیک نے افسردہ لہجے میں کہا: ’’جب آپ کسی کو بہت زیادہ چاہتے ہو تو اس کی روح آپ کے دل سے کبھی نہیں نکلتی۔‘‘
اینگس نے مداخلت کی: ’’ٹھیک ہے، جیزے اب ان بچوں کو گھر لے کر جاؤ اور ہم تینوں قلعہ آذر کا ایک چکر لگائیں گے۔ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ جیزے تم جونی کو لے کر ایک گھنٹے میں وہاں ہم سے ملو۔‘‘
جیزے بچوں کو لے کر چلا گیا تو اینگس جیک کو لے کر گھر سے نکلے اور آس پاس گھما کر نئے دور کے بارے میں بتانے لگے۔ جمی اور جیک کو خزاں کی اس سرد رات میں ماحول بہت عجیب لگ رہا تھا، ایسے میں اینگس کہنے لگے: ’’ایک عرصہ ہوا ہے، میں قلعہ آذر نہیں جا سکا ہوں، حیران ہوں کہ آج رات کیا رنگ دکھائے گی؟‘‘
جمی نے دھیرے سے کہا: ’’امید ہے کہ سب ٹھیک رہے گا!‘‘
وہ تینوں درختوں کے جھنڈ میں داخل ہو کر اندھیرے کا حصہ بن گئے!