تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

جہیز ایک لعنت : مہنگائی میں متوسط طبقہ کیا کرے؟

شادی کا بندھن صرف لڑکے اور لڑکی کے تعلق کا ہی نام نہیں بلکہ یہ رشتہ دو خاندانوں کے درمیان نئے تعلق کو جنم دیتا ہے۔

دُنیا کے ہرخطے میں شادی کے موقع پر مخصوص رسم و رواج کو پورا کرنے کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے اگر کسی بھی خطے میں ہونے والی شادی میں ان رسومات کو پورا نہ کیا جائے تو شادی کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔

ان ہی رسومات میں جہیز بھی خاص اہمیت کا حامل ہے ہمارے معاشرے میں ویسے تو سب لوگ جہیز کو معیوب کہتے ہیں لیکن عملی طور پر اسے مانگنا یا لینا برا نہیں سمجھتے۔

اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں رشتے کروانے والی خاتون (میچ میکر) شازیہ رحمان نے شرکت کی اور جہیز سے متعلق رشتوں میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے بارے میں ناظرین کو آگاہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جہیز لینے اور دینے کے بارے میں جیسے پہلے سوچا جاتا تھا آج بھی وہی صورتحال ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ طریقہ واردات بدل گیا ہے، یعنی جہیز مانگنے کا انداز نیا اپنا لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں امیر ہو یا غریب سب ہی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے سے اپنی بات دوسرے کے کانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔

شازیہ رحمان نے بتایا کہ صرف لڑکے والے نہیں بلکہ لڑکی والے بھی اپنی شرائط رکھتے ہیں کہ ہماری لڑکی جوائنٹ فیملی میں نہیں رہے گی یا ہنی مون منانے کہاں لے کر جائیںگے۔

اس موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل کے سینئر ریسرچر مفتی غلام ماجد نے جہیز کی لعنت کے حوالے سے شرعی اور آئینی قوانین پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے بتایا کہ جہیز کا قانون 1976 میں بنایا گیا اس قانون میں تین موضوعات بیان کیے ہیں پہلا جہیز دوسرا دلہن کے تحائف و ملبوسات اور تیسرا شادی کے مجموعی اخراجات، جس کیلئے چند ہزار روپے مختص کیے گئے ہیں۔

اس قانون کو تمام فریقین نے پسند کیا لیکن بد قسمتی سے اس پر عمل درآمد کوئی نہیں کرتا، انہوں نے کہا کہ امیر طبقہ اگر اپنے بچوں کی اس طرح سادگی سے شادیاں کرے تو ممکن ہے کہ اس عمل سے معاشرے میں شادیاں کرنا آسان ہوجائے گا، بصورت دیگر یہ مسئلہ حل نہیں ہو پائے گا۔

Comments

- Advertisement -