نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
’’ایک لڑکی کا نام گیلس تھا، وہ بے حد خوب صورت تھی۔ وہ اپنے بڑے بھائی کو ہمیشہ کسی مشکل میں ڈال کر خوش ہوتی تھی۔ اس کے بال مٹیالے بھورے رنگ کے تھے، جنھیں وہ گُوندھ کر رکھتی تھی۔ ملکہ اس کے بالوں کی چُٹیا بنا کر ربن سے باندھ دیتی تھی۔ اسے بالوں میں پھول لگانا پسند تھا۔ یہ خوب صورت لڑکی کافی حد تک ازابیلا سے مشابہ تھی، اس کی آنکھیں نیلی تھیں۔ وہ مہارت سے باجا بجاتی تھی، میں نے کئی بار بیٹھ کر اس سے باجا سنا۔‘‘ جانی کہتے کہتے رکا، وہ جھیل کے کنارے پہنچ گئے تھے، انھیں وہاں کشتی دکھائی نہیں دی۔ جانی پھر ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔
’’رایَد تیسرا بچہ تھا۔ اپنے والد کے آبا و اجداد کی طرح اس کے بال سیاہ تھے۔ اس کی آنکھیں گہری کتھئی رنگ کی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ چپ چاپ رہتا ہے اور اس کا زیادہ تر وقت قلعے کے اندر کتابیں پڑھنے میں گزرتا ہے۔ لیکن میری آنکھوں کا تارا گِلی این تھی۔ وہ بچّی مجھے بہت پسند تھی، اس کا گول مٹول چہرہ اور اس پر بڑی بڑی آنکھیں دل موہ لیتی تھیں۔ وہ آنا کی طرح تھی۔ مجھے وہ سب بہت یاد آ رہے ہیں۔ جب میں لوٹ کر قلعے میں داخل ہوا، تو ان کے جسم جلے ہوئے تھے۔ میں انھیں اس حال میں دیکھ کر نڈھال ہو کر گر گیا۔ آہ، وہ معصوم صورت گِلی این اپنے گھنگھریالے بالوں کے ساتھ خون میں لت پت پڑی تھی!‘‘
جانی چپ ہوا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جیک نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکے سے دبایا۔ کئی منٹ تک جانی اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا، پھر بڑے جلے ہوئے دل کے ساتھ بولا: ’’جادوگر پہلان اور کنگ دوگان کی اولاد نے ہمارے بادشاہ کے ساتھ جو کچھ کیا، انھیں اس کی سزا ضرور ملے گی۔‘‘
جیک بھی بول اٹھا: ’’جی ہاں، مجھے یقین ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنے اعمال کا مزا ضرور چکھیں گے۔‘‘
انھوں نے جھیل کے کنارے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کشتی نظر نہیں آئی۔ پھر جیک چونک کر بولا: ’’وہاں دیکھو، دوسرے کنارے پر، قلعے کے پاس ہے کشتی۔ واہ بہت مزا آئے گا اگر اس وقت ڈریٹن اپنے اُس خبیث جادوگر کے ساتھ قلعے کے اندر ہو۔ کیا آپ اندر جانے کا کوئی دوسرا راستہ جانتے ہیں؟‘‘
جانی بتانے لگا کہ ایک زمانہ گزر گیا ہے اس تمام علاقے پر، ہم اسی جھیل کے کنارے کنارے اُسی غار ہی میں جا سکتے ہیں جہاں ہم گزشتہ رات گئے تھے۔ قلعے کی زمینوں میں ایسی جگہیں ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہاں ہیں اور قلعہ وہاں۔ بہتر ہو گا کہ ہم وہ غار تلاش کر لیں۔
’’تو کیا اور کوئی راستہ نہیں ہے؟‘‘ جیک نے پھر پوچھا۔ ’’ہاں، کوشش کر سکتے ہیں لیکن اس تلاش کے دوران ان خطرناک مکڑیوں یا ان سے بھی زیادہ دہشت ناک چیزوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔‘‘ جانی نے جواب دیا۔
’’تو ٹھیک ہے، غار ہی تلاش کرتے ہیں۔‘‘ جیک نے ٹھنڈی سانس کھینچی۔ انھیں غار اور درختوں کے جھنڈ والی جگہ ڈھونڈنے میں پندرہ منٹ لگ گئے، پھر آخر انھیں وہ جگہ دکھائی دے گئی جہاں جیزے گرا تھا۔ وہ دونوں غار میں داخل ہو گئے۔ جانی نے کہا: ’’ڈریٹن نیچے نہیں ہے، لیکن جب تک ہم یہاں ہیں تو میں چند چیزیں ڈھونڈنا چاہتا ہوں یہاں۔‘‘
جیک نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ وہ جانی کی بات نہیں سمجھ سکا تھا۔ جانی نے بتایا کہ یہاں کچھ ایسی خفیہ جگہیں ہیں جہاں ملکہ نے اپنے زیورات اور کنگ کیگان نے اپنی کتابیں چھپائی تھیں۔ وہ آگے بڑھتے ہوئے بولا: ’’اس غار میں کچھ نہیں ہے لیکن جب ہم سیڑھیوں کے پاس جائیں ے تو وہاں چند خفیہ جگہیں ہیں۔‘‘