جمعرات, دسمبر 5, 2024
اشتہار

کیا یرغمالیوں کی رہائی غزہ کو اسرائیلی بمباری سے محفوظ رکھ سکتی ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

فلسطینیوں‌ پر اسرائیلی فوج کے مظالم، یہودی بستیوں‌ کی تعمیر کے لیے نسلوں سے آباد عرب باشندوں کی بے دخلی کے باعث یہ خطّہ تنازعات اور جنگیں دیکھتا آرہا ہے۔ حماس کے مزاحمت کار اسرائیل کے خلاف کارروائی کرتے رہتے ہیں۔ سات اکتوبر کو بھی حماس کی ایک کارروائی میں ہلاکتوں کے بعد اسرائیل نے بڑے پیمانے پر فلسطینیوں پر حملے شروع کر دیے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہداء کی تعداد ہزار کا ہندسہ عبور کرگئی۔ فلسطینیوں کے گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اور وہاں‌ نظام زندگی درہم برہم ہو چکا ہے۔

حماس سے منسلک عزالدین القسام بریگیڈز اور دیگر مزاحمتی قوتوں کی طرف سے غیرمتوقع ’طوفان الاقصیٰ آپریشن‘ میں اسرائیل کو نشانہ بنانے کے ساتھ ہی دونوں جانب سے بڑے پیمانے پر جھڑپوں کا آغاز ہوگیا، ان جھڑپوں میں اب تک کم وبیش 1400 سے زائد اسرائیلی ہلاک اور 8 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں اور تعداد بڑھ رہی ہے۔

اسرائیل نے حماس کے اچانک حملے کے بعد بوکھلاہٹ میں انتقامی طور پر غزہ کی پٹی میں بسے ہوئے نہتے لوگوں پر بمباری کردی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ امریکا نے اسرائیل کی حمایت کی ہے جب کہ اسلامی دنیا نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کو خبردار کیا کہ وہ فلسطینیوں پر حملے بند کردے۔

- Advertisement -

اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں میں کمسن اور معصوم بچے بھی شامل ہیں جنہیں یہ تک علم نہیں کہ اسرائیل اور فلسطین ہے کیا اور ان کے درمیان تنازع کیا ہے۔

جنگ تو چھڑ گئی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حماس اور اسرائیل کی یہ لڑائی کیسے ختم ہوگی؟ یا عالمی دباؤ کے پیش نظر اسرائیل کب تک یہ سب جاری رکھ سکے گا؟ اس سے قبل بھی اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں کئی آپریشن کیے جاچکے ہیں مگر کیا اس مرتبہ اسرائیلی کمانڈر حماس کے خلاف ‘آپریشن’ مکمل کرسکیں‌ گے؟

اقوام متحدہ نے بھی متنبہ کیا ہے کہ غزہ تیزی سے جہنم بن رہا ہے، وہاں اموات بڑھ رہی ہیں جبکہ پانی، بجلی اور ایندھن کی سپلائی کو کاٹ دیا گیا ہے جبکہ نصف آبادی کو علاقہ چھوڑنے کا کہہ دیا گیا ہے لیکن اسرائیل نے اقوام متحدہ کی کسی قرارداد یا انتباہ کو پہلے کی طرح نظر انداز کردیا ہے۔

سال 2011 میں اسرائیل نے پانچ سال سے حماس کی تحویل میں اپنے فوجی گیلات شالیت کے بدلے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا تھا، اسرائیل کے مطابق اس وقت کم سے کم 229 اسرائیلی شہری غزہ کے مزاحمتی گروپ کی تحویل میں ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی رہائی کیلئے اسرائیل حماس سے کوئی معاہدہ کرتا ہے یا وہ اس آپریشن کو جاری رکھتے ہوئے اپنے شہریوں کو آزاد کروائے گا۔

دوسری جانب حماس کے عسکری بازو عزالدین القسام بریگیڈ کا کہنا ہے کہ اسرائیل اگر اپنی جیلوں میں موجود ہمارے لوگوں کو رہا کر دے تو وہ اس کے یرغمال بنائے تمام افراد کو رہا کر دیں‌ گے۔

حماس کیا ہے؟
حماس تحریک کی بنیاد 1987 میں پہلی فلسطینی بغاوت کے دوران رکھی گئی تھی، یہ تحریک اخوان المسلمون کے اسلامی نظریے جیسا نظریہ رکھتی ہے جو مصر میں 1920 کی دہائی میں قائم ہوئی تھی۔

فلسطینی صدر محمود عباس مغربی کنارے میں مقیم اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سربراہ بھی ہیں، صدر محمود عباس کی فتح تحریک کی وفادار افواج کے ساتھ ایک مختصر خانہ جنگی کے بعد حماس نے 2007 سے غزہ کی پٹی کی حفاظت کی ہے۔

غزہ کی پٹی پر حماس کا اثر و رسوخ 2006 میں فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں اپنی جیت کے بعد ہوا، حماس نے محمود عباس پر سازش کرنے کا الزام لگایا جبکہ محمود عباس نے جو کچھ ہوا اسے بغاوت قرار دیا۔

حماس نے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے 1990 کی دہائی کے وسط میں اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے درمیان طے پانے والے اوسلو امن معاہدے کی مخالفت کی تھی۔

غزہ کی پٹی
غزہ ایک ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ قدیم تجارتی اور سمندری راستوں پر واقع ہے، 1917 تک یہ پٹی سلطنت عثمانیہ کے زیر سایہ رہی اور گزشتہ صدی کے دوران برطانویوں سے مصر اور پھر اسرائیلی فوجی حکمرانی تک منتقل ہوا اور اب یہ ایک حفاظتی باڑ کا حامل ایک ایسا علاقہ ہے جہاں 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی آباد ہیں۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں