الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا ہے اور اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے، جس کے بعد سیاسی جماعتوں نے الیکشن مہم کا اغاز کر دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چترال میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے عوام کا مطالبہ ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری یہاں سے الیکشن لڑے اور اس کے لیے وہ آصفہ بھٹو کو منائیں گے کہ وہ چترال کے حلقے سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں اور جیت کر یہاں کے عوام کی خدمت کریں۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے حقلہ این اے 1 چترال سے ماضی میں بلاول بھٹو کی نانی نصرت بھٹو بھی کامیاب ہوئی تھیں، انھوں نے یہاں سے الیکشن لڑا اور چترال کے عوام نے ان کو دل کھول کر ووٹ دیا۔
چترال کے حلقے سے کتنی خواتین نے الیکشن لڑا؟
چترال کے حقلے سے اب تک 3 خواتین امیدواروں نے قسمت آزمائی کی ہے، ان میں دو خواتین امیدواروں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ نصرت بھٹو نے 1988 کے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ٹھہریں جب کہ 1988 کے انتخابات میں تیسرے نمبر پر بھی خاتون امیدوار بیگم شیر علی رہیں۔ 1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے پھر خاتون امیدوار کو ٹکٹ دیا، زوجہ محمد سلیمان نے الیکشن میں حصہ لیا اور وہ 15 ہزار ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہیں، جب کہ پاکستان اسلامی فرنٹ کے مولانا عبدالرحیم 16 ہزار 275 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔
الیکشن کب ہونا ہے؟
الیکشن 8 فروری 2024 کو ہونا ہے، الیکشن کا شیڈول ابھی تک جاری نہیں ہوا لیکن سپریم کورٹ میں 90 دن میں الیکشن سے متعلق کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے تحریری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ الیکشن کے انعقاد پر کسی کو شک و شبہات نہیں ہونے چاہیئں، میڈیا بھی یہ نہ کہے کہ الیکشن ہوگا یا نہیں۔ صدر مملکت، الیکشن کمیشن اور تمام اسٹیک ہولڈرز نے دستخط کر کے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ الیکشن 8 فروری کو ہوں گے۔ چناں چہ الیکشن کے انعقاد میں اب کوئی دو رائے نہیں ہیں، 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہوں گے۔
قومی اسمبلی کا حلقہ این اے ون چترال جہاں سے قومی اسمبلی کی نشستوں کا آغاز ہوتا ہے، اس حلقے سے کون کون منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے، اس پر تفصیل سے بات کریں گے۔
قومی اسمبلی کا حلقہ این اے ون چترال تاریخی حیثیت کا حامل حلقہ ہے، یہ پاکستان کا دور دراز پہاڑی علاقہ ہے اور ترقی کے لحاظ سے بھی دیگر علاقوں سے بہت پیچھے ہے۔ سڑکیں خراب ہیں اور دیگر بنیادی ضروریات بھی وہاں کے عوام کی نصیب میں اب تک نہیں آئیں،
لیکن چترال خوب صورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ قدرتی حسن سے مالامال چترال کے عوام مہمان نواز بھی ہیں اور نہ صرف خیبر پختون خوا بلکہ ملک میں سب سے پرامن علاقہ بھی چترال ہے، جہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔
چترال کے عوام الیکشن میں جہاں مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیگر کامیاب کراتے ہیں وہاں ماضی میں خواتین امیدواروں کو بھی دل کھول کر ووٹ دیے گئے ہیں اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو چترال کی نشست سے 1988 کے الیکشن میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔
ماضی میں کس پارٹی کے امیدوار یہاں سے کامیاب ہوئے؟
صاحب زادہ محی الدین
1985 کے عام انتخابات میں چترال کا حلقہ این اے 24 کہلاتا تھا اور اس حلقے سے 1985 میں صاحب زادہ محی الدین 26 ہزار 707 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، جب کہ مولانا عبدالرحیم چترالی 22 ہزار 745 ووٹ لے کر دوسرے نمبر رہے۔ یاد رہے کہ 1985 کے عام انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے۔
20 مارچ 1985 کو محمد خان جونیجو وزیر اعظم منتخب ہوئے، ان کی حکومت 3 سال چلی اور پھر اس وقت کے صدر نے آرٹیکل 58(2)(b) کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔
نصرت بھٹو
جنرل ضیاالحق کے طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد 16 نومبر 1988 کو عام انتخابات ہوئے اور اس بار چترال کے حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوار نصرت بھٹو نے 32 ہزار 819 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کر لی اور دوسرے نمبر پر آئی جے آئی کے امیدوار صاحب زادہ محی الدین رہے، جب کہ تیسرے نمبر پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والی خاتون امیداور بیگم شیر علی رہیں۔ نصرت بھٹو چترال سے کامیاب ہونے والی پہلی خاتون امیدوار تھیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کے لیے آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) کے نام سے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنایا گیا تھا، 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی لیکن حکومت ڈھائی سال ہی چل سکی اور ماضی کی طرح ایک بار پھر صدر پاکستان (غلام اسحاق خان) نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو چلتا کر دیا۔
صاحب زادہ محی الدین
1990 کے جنرل الیکشن میں چترال کے حلقے این اے 24 سے اسلامی جمہوری اتحاد کے صاحب زادہ محی الدین کامیاب قرار پائے، ان انتخابات میں مسلم لیگ کے نواز شریف وزیر اعظم بنے، لیکن ان کی حکومت بھی زیادہ دیر نہ چل سکی اور جمہوریت کُش روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے 18 اپریل 1993 کو اسمبلی تحلیل کر دی، لیکن اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا اور سپریم کورٹ نے کیس سننے کے بعد 26 مئی کو اسمبلی بحال کر دی لیکن پھر 18 جولائی 1993 کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور نئے انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔
مولانا عبدالرحیم
1993 کے عام انتخابات میں چترال کے حلقے این اے 24 سے پاکستان اسلامی فرنٹ کے مولانا عبدالرحیم 16275 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جب کہ پیپلز پارٹی کی خاتون امیدوار زوجہ محمد سلیمان خان 15 ہزار 765 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہیں۔ ان انتخابات میں قومی سطح پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور بے نظیر بھٹو دوسری بار ملک کی وزیر اعظم بنیں، لیکن ان کی حکومت بھی اپنی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی 5 نومبر 1996 کو اُس وقت کے صدر فاروق لغاری نے ختم کر دی اور یوں پاکستانی صدور کی جانب سے جمہوریت کُش روایت کو جاری رکھا گیا۔
صاحب زادہ محی الدین
1997 کے عام انتخابات میں صاحب زادہ محی الدین مسلم لیگ ن کے میدوار تھے اور اس بار بھی وہ چترال سے کامیاب ہوئے، انھوں نے 24 ہزار 302 ووٹ لیے جب کہ دوسرے نمبر پر رہنے والے امیدوار پیپلز پارٹی کے میجر ریٹائرڈ احمد سعید تھے، جنھوں نے 12 ہزار 222 ووٹ لیے تھے۔
1997 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی اور نواز شریف دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجماں ہوئے لیکن یہ حکومت بھی زیادہ دیر نہ چل سکی، اور اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو حکومت کو چلتا کر دیا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور وزیر اعظم نواز شریف کو گرفتار کر کے اٹک قلعہ پہنچا دیا۔
مولانا عبدالکبیر چترالی
2002 میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں الیکشن کا انعقاد کیا گیا اور چترال کے حلقے این اے 32 (2002 الیکشن سے قبل یہ حلقہ این اے 24 کہلاتا تھا) سے مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے مولانا عبدالکبیر چترالی کامیاب ہوئے۔ انھوں نے 36 ہزار 130 ووٹ لیے جب کہ 2002 الیکشن سے کچھ مہینے پہلے بننے والی نئی جماعت مسلم لیگ قائد اعظم کے امیدوار افتحار الدین 23 ہزار 907 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
شہزادہ محی الدین
2008 کے عام انتخابات سے پہلے پرویز مشرف نے اپنی نئی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بنائی اور چترال کے حلقے سے شہزادہ محی الدین اس بار آل پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر میدان میں اترے اور 33 ہزار 278 ووٹ لے کر کامیاب قرار دیے گئے، جب کہ آزاد امیدوار سردار محمد خان 31 ہزار 120 ووٹ لے کر دوسرے اور پیپلز پارٹی کے شہزادہ غلام محی الدین 18 ہزار 516 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔
2008 انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن گئے، جب کہ آصف علی زرداری صدر بنے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی ایک سیاسی پارٹی نے اپنا 5 سالہ دور پورا کیا۔
افتخار الدین
2013 جنرل الیکشن میں چترال کے عوام نے ایک بار پھر آل پاکستان مسلم لیگ کے حق میں فیصلہ دیا، اور اے پی ایم ایل کے امیدوار افتخار الدین نے 29 ہزار 772 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عبدالطیف 24 ہزار 182 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
مولانا عبدالکبر چترالی
2018 کے انتخابات میں چترال کا حلقہ این اے ون بن گیا، قومی اسمبلی کا این اے ون پہلے پشاور سٹی ہوا کرتا تھا، لیکن 2018 الیکشن سے پہلے حلقہ این اے ون چترال کو دیا گیا۔ 2018 جنرل الیکشن میں چترال کے عوام نے جماعت اسلامی کے حق میں فیصلہ دیا، جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا عبدالکبر چترالی 48 ہزار 616 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے عبدالطیف 40 ہزار 2 ووٹ لے کر دوسرے اور پیپلز پارٹی کے امیدوار سلیم خان 32 ہزار 635 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔
چترال کے حلقے سے اگلا فاتح کون؟
اب 8 فروری 2024 کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں نے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور مختلف حلقوں سے اپنے اپنے امیدوار فائنل کر رہے ہیں۔
چترال سے اس بار سیاسی پارٹیاں کون سے امیدوارں کو میدان میں اتارتی ہیں، کیا اس میں خواتین امیدوار بھی قسمت آزمائی کریں گی؟ یہ تو الیکشن کے ٹکٹ کنفرم ہونے کے بعد پتا چلے گا، لیکن اگر ماضی کے انتخابات پر نظر دوڑائی جائے تو چترال کے عوام نے کسی ایک پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ ہر دور میں نئے امیدواروں کو ووٹ دیا گیا اور خواتین امیدوار جب بھی مقابلے میں آئیں تو انھوں نے اچھا مقابلہ کیا ہے۔ اس لیے اگر پیپلز پارٹی کی جانب سے آصفہ بھٹو زرداری کو کھڑا کیا جاتا ہے، تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اس بار یہ حلقہ آصفہ بھٹو کے نام رہے گا۔