کراچی: حبیب یونیورسٹی کے زیراہتمام چھٹے سالانہ پوسٹ کالونیل ہائر ایجوکیشن کانفرنس پی ایچ ای سی کا انعقاد کیا گیا۔
”اسلام میں اخلاق اور روحانیت: ماضی، حال، مستقبل“کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کا محور علمی گفتگو تھی۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے نوآبادیاتی دور کے بعد کے تناظر میں علمی گفتگو اور عالمی رابطوں کو مضبوط بنانے کے لیے سیرحاصل بحث ہوتی ہے۔
بصیرت انگیز گفتگو کو فروغ دینے کی حبیب یونیورسٹی کی روایت کے مطابق رواں سال کے پی ایچ ای سی کا مقصد اسلامی روایات میں اخلاقی اور روحانی جہتوں کے درمیان ضروری تصوراتی اور عملی روابط کو تلاش کرنا تھا۔موجودہ دور کی تیزی رفتاری کے باعث زندگی کے مربوط جہتوں میں بگاڑ اور خرابی پیدا ہورہی ہے۔
کانفرنس میں مذہب، اخلاقیات اور روحانیت کے درمیان روابط کے بڑھتے ہوئے خطرناک انحطاط اور بگاڑ پر توجہ دلائی گئی۔
حبیب یونیورسٹی کیمپس میں منعقدہ کانفرنس میں دنیا بھر کے ممتاز اسکالرز، مفکرین، سرگرم کارکنان اور ادیبوں نے اپنے کام کا اشتراک کرنے کے ساتھ موجودہ تناظر میں اعلیٰ تعلیم وثقافت کے بحران، سمت اور اہداف پر غور کیا۔
تعارفی خطاب میں کانفرنس کے چیئر حبیب یونیورسٹی میں ہیومینٹیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نعمان نقوی نے کہا کہ پی ایچ ای سی کا اہم ترین مقصد تعلیمی نقصان کی تلافی کرنا ہے۔ معاشرے کے اندر نوآبادیاتی دور کے بعد کے تعلیم کا نفاذ ناگزیر ہے تاکہ ہم نوآبادیاتی ذہنیت کے ذریعے پیدا ہونے والے ٹوٹ پھوٹ سے نکل سکیں۔
اپنے کلیدی خطاب میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں مسلم سوسائٹیز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شہنیلا کھوجا مولجی نے کہا کہ جنوبی ایشیائی فرقہ وارانہ علم بشمول مذہب کو نوآبادیاتی دور کے باعث نقصان کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے اسلام کی خصوصیات نیکی، جذبہ اور احترام پر سمجھوتہ کیا گیا۔
ان مشکلات کے باوجود ہمارے مذہب میں خوبصورتی کے عناصر اور جنوبی ایشیائی کمیونیٹیز کی عام اخلاقیات برقرار رہیں اور روزمرہ کے طریقوں جیسے کہ ‘خدمت’ کا تصورجس میں اچھے اعمال پر زور دیا گیا ہے اور ‘مہمان نوازی’ میزبانوں کی جانب سے مہمانوں کو دی گئی عزت پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے۔