پاکستان میں اربنائزیشن کا عمل عمومی طور پر غیر منظم طور پر، بغیر منصوبہ بندی جاری ہے۔ اسلام آباد پاکستان کا نیا آباد کیا جانے والا منصوبہ بند شہر بھی بے ہنگم طور پر اپنے اطراف میں پھیلتا چلا جارہا ہے۔ شہر اپنی بے ہنگم ترقی کے بوجھ تلے دبے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک عبرت ناک مثال ڈھائی کروڑ سے زائد انسانوں کا شہر کراچی ہے، جہاں چاروں سمت سے انسانوں کی بھیڑ چلتی چلی آ رہی ہے اور شہر کنکریٹ کا جنگل بنتا جا رہا ہے۔
کراچی کی آبادی، آمدن اور ضروریات
یوں تو پاکستان اور بالخصوص سندھ کے تقریباً تمام اربن سینٹرز مسائل کا شکار ہیں، لیکن کراچی میں شہری سہولیات کا خطرناک حد تک فقدان شہریوں کے غصے اور افسردگی کو اس لیے بھی شدید کر دیتا ہے کہ یہ شہر ملک کے دیگر شہروں کی نسبت ٹیکسوں اور آمدن کی مد میں اتنا کچھ دیتا ہے، کہ اس کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ شہر اپنے محل وقوع کی بنا پر ہمیشہ ہی جاذب نظر رہا ہے، تاہم اس کی زمین اور دولت ہی اس کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔
کراچی شہر میں واقع دو سمندری بندرگاہیں، ایک بین الاقوامی ایئرپورٹ، 95 فی صد غیر ملکی تجارت اور نصف سے زائد فی صد ملکی و غیر ملکی صنعت، اور کاروباری اور مالیاتی اداروں کا مرکزہ ہونے کے باوجود یہاں نہایت ہی بنیادی نوعیت کی انسانی ضروریات شرم ناک حد تک ناپید ہیں۔ یہ دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے جس کی سالانہ جی ڈی پی 164 ارب ڈالرز یعنی 27 ہزار 650 ارب روپے ہے، جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 20 سے 25 فی صد اور سندھ کی جی ڈی پی کا 95 فی صد ہے۔ یہ شہر ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 980 ارب روپے سے زائد ٹیکس کی مدد میں دیتا ہے، جو جمع ہونے والے مجموعی ٹیکس کا 41 فی صد ہے لیکن اس کے جواب میں شہر سالانہ 30 ارب سے بھی کم اپنی ضروریات کے لیے حاصل کر پاتا ہے۔
شہری ووٹ
پاکستان میں جمہوری قدروں کی پامالی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے۔ عددی طور پر دیہات میں ووٹوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے مگر اس ملک میں شہری ووٹ سیاسی عمل میں ایک اہم عنصر کے طور پر اپنا کام کرتا رہا ہے۔ شہری سیاست کا رخ ہمشیہ ہی بے تابی کا سا رہا ہے، دارالحکومت کی حیثیت چھننے، صنعتی اور تعلیمی مرکز ہونے نے جہاں اسے ایوب آمریت کے خلاف مشترکہ اپوزیشن کا مضبوط مورچہ بنا دیا تھا، وہیں انقلابی تحریکوں کا گڑھ بھی بنا دیا۔ لیکن یہی شہر آگے چل کر مذہبی جماعتوں کو اس وقت پارلیمنٹ میں پہنچانے کا باعث بنا، جب پورا ملک ترقی پسند اور قومی حقوق کی علم بردار سیاسی قوتوں کی آواز بنا ہوا تھا۔ اور ایک وقت میں نسلی اور لسانی ابھار نے شہر کی ہر اس اعلیٰ روایت کو بندوق اور خوف کے زور پر مسخ کر ڈالا جسے اس نے صدیوں کے سماجی سفر میں پال کر توانا کیا تھا۔
شہر کے تمام دعوہ گیروں نے وہ تباہی مچائی ہے جو شاید حملہ آور بھی نہیں کرتے۔ انھوں نے نہ صرف اس کی ہر خوب صورتی کو بگاڑا بلکہ شہر کی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی۔ اپنی شان دار تاریخ رکھنے والا یہ شہر ایک تاریخی کُل یعنی سندھ کا جُز ہے اور نہایت اہمیت کا حامل جُز لیکن یہ کُل نہیں ہے اور نہ ہی اسے تاریخی کُل سے جدا کیا جا سکتا ہے۔ اسی تاریخ حقیقت پر ہر بار ضرب لگانے کی لاحاصل کوشش کی جاتی رہی ہے اور نفرت کے انگارے بھڑکا کر ہاتھ تاپنے کی کوشش میں نہ صرف ہاتھ جلے بلکہ اس الاؤ میں شہر کی ہمہ رنگ خوب صورتی بھی جھلس گئی۔
تاریخ اور میئر شپ
سندھ پر 1847 میں میانی کی جنگ کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کا آغاز ہوا، اور 1840 سے اسے سندھ کا کیپیٹل قرار دیا گیا۔ سندھ کے اس ساحلی شہر کو میونسپلٹی بننے کا اعزاز 1910 میں ملا اور اس کے پہلے صدر سر چارلس مول اور ان کے بعد غلام علی چھاگلہ اس عہدے پر فائز ہوئے، جن کے بیٹے نے پاکستان کا سرکاری ترانہ کمپوز کیا تھا۔ کراچی کے نامور شہری جمشید نسروانجی مہتا بھی 20 برس اس عہدے پر رہے۔ 1933 میں کراچی سٹی میونسپل کمیٹی ایکٹ پاس ہوا اور اس کا سربراہ میئر قرار پایا۔ پاکستان وجود میں آنے سے کچھ ماہ پہلے حکیم محمد احسن کراچی کے میئر بنے تھے۔ اب تک 24 میئر شہر کے انتظامات چلاتے آئے ہیں، یہ برصغیر کی اولین میونسپلٹی تھی جس نے رہائشی/ پراپرٹی ٹیکس عائد کیا۔
سندھ کو ممبئی پریذیڈنسی کے ماتحت کر دیے جانے کے خلاف ایک طویل اور مسلسل جدوجہد کے بعد جب یکم اپریل 1936 کو سندھ بمبئی سے علیحدہ ہوا، تو کراچی ایک بار پھر اس کا دارالحکومت بنا۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی ملک کا کیپٹل قرار پایا اور اسے سندھ سے 1948 میں الگ کر دیا گیا، جس کے نہایت برے اثرات مرتب ہوئے۔ اکتوبر 1955 میں ون یونٹ کے نام پر سندھ کی صوبائی حیثیت ختم کر دی گئی، جو ون یونٹ مخالف تاریخی تحریک کے نتیجے میں یکم جولائی 1970 میں دوبارہ بحال ہوئی اور کراچی ایک بار پھر سندھ کا کیپٹل قرار پایا۔
ایک بڑا شہر ایک بڑی پناہ گاہ
سندھ اور اس کے اکثر شہروں اور خصوصاً کراچی کی ڈیموگرافی میں غیر متناسب طور پر تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں۔ ملک کے قیام کے بعد ہجرت کر کے ہندوستان سے آنے والوں کی اکثریت سندھ اور خصوصاً اس کے شہروں میں رہائش پذیر ہوئے۔ کراچی کے کیپٹل بننے کے نتیجے میں ملک کے دیگر علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد میں سندھ اور خصوصاً کراچی کی جانب نقل مکانی ہوئی، ون یونٹ کے پندرہ سالوں میں ملک کے دیگر علاقوں سے اس شہر کی جانب آنے کا سلسلہ جاری رہا، صنعتی شہر اور واحد سمندری بندرگاہ ہونے کی بنا پر روزگار کے متلاشیوں کے لیے بھی یہ شہر ہمیشہ توجہ کا مرکز رہا۔ بنگلادیش کے قیام کے بعد وہاں سے آنے والوں کے لیے بھی کراچی ہی وہ شہر تھا جہاں وہ رہائش اختیار کرنا چاہتے تھے۔ اسی عرصے میں برما سے بھی بہت سی برادریوں نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔
80 کی دہائی کے آخری سالوں میں ایران میں شاہ مخالف انقلاب اور افغانستان پر تھوپے جانے والے جہاد کے نتیجے میں لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بھی اسی شہر کی جانب ہی تھا۔ اس کے بعد حالیہ برسوں میں قبائلی اور دیگر علاقوں میں جاری آرمی آپریشن کے نتیجے میں بھی متاثرین کی ایک بڑی تعداد نے اس شہر کا رخ کیا۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں روزگار کے سکڑتے امکانات نے بھی لوگوں کو کراچی کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ یہی صورت حال پنجاب کے جنوبی علاقوں کی ہے جہاں سے کراچی کی جانب مائیگریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب اور غیر معمولی بارشوں نے بھی سندھ کے دیہی علاقوں سے سیلاب متاثرین کی ایک بڑی تعداد کو کراچی میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔
مگر ترقی کے مدارج
یوں کہا جا سکتا ہے کہ کراچی میں آبادی کا دباؤ عام شرح کے برعکس بہت تیزی سے بڑھا ہے، لیکن اسی تناسب سے ترقی کے مدارج طے نہ ہو سکے۔ شہر کو اس کی آبادی کے تناسب سے وسائل کی فراہمی کبھی بھی ممکن بنانے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اور اس سلسلے میں اگر جان بوجھ کر شہر کی آبادی ہی اصل سے 30 سے 40 فی صد کم دکھائی جائے، تو پھر شہر کا بحرانوں کے گرداب میں پھنسنا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔
پانی
شہر کی نمائندگی کے دعوے داروں کے نزدیک اس کے شہریوں کی ترقی کبھی بھی مقصود نہیں رہی، بلکہ شہر کی دولت اور قیمتی زمینیں ہی ان کا مطمح نظر رہا۔ پارک، باغ، میدان، ندی نالے تو ہمیشہ سے ہی قبضہ گیروں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئے لیکن انھوں نے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو بھی جاگیر تصور کر لیا۔ بجلی اور پانی کی ترسیل کے مناسب نظام کو تہہ و بالا کر دیا گیا۔ بجلی کے 100 سالہ طریقہ کار کو غیر ملکی کمپنی کے ناتجربہ کار گروہ کے حوالے کر دیا، جس نے شہریوں کو تاریکیوں میں ڈوبی الم ناک داستان کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پانی جیسی انسانی ضرورت تک شہریوں کی رسائی ناممکن بنا دی گئی، شہریوں کو ان کا اپنا پانی مافیا نے بیچنا شروع کر دیا اور شہر کے 40 فی صد سے زائد علاقے آج بھی پانی کی پائپ لائنوں سے یکسر محروم ہیں۔
نکاسئ آب
حالیہ بارشوں نے نکاسئ آب کے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ شہر کا تمام سیوریج اور کچرا قدرتی آبی گزر گاہوں میں پھینک کر قدرتی ماحول پر مجرمانہ حملہ کیا گیا۔ شہر کے دو دریا لیاری اور ملیر کے علاوہ 60 سے زائد چھوٹے بڑے ندی نالے جو سمندر میں برساتی پانی گرانے کا قدرتی ذریعہ تھے، انھیں گندے نالوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ان ندی نالوں میں صنعتی ادارے خطرناک کیمیائی فضلہ پھینک رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پورے شہر میں خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ جب کہ سمندر کی جانب پانی کی نکاسی کے چار بڑے مقامات پر غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے پانی کے راستے کو بلاک کر دیا گیا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ
شہر پر قابض مافیا نے پبلک ٹرانسپورٹ کے مؤثر ترین ذریعے کو ترقی دینے کی بجائے بیچ کھا لیا۔ آج کراچی شاید دنیا کا واحد میگا سٹی ہے جو پچھلی نصف صدی سے بغیر کسی پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے ڈھائی کروڑ سے زائد شہریوں کو پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم کرم پر چھوڑے ہوئے ہے۔ یہی صورت حال تعلیم اور صحت کے شعبے کی بھی ہے۔ کراچی کا جثہ اور اور آبادی جس تیزی سے بڑھی ہے صحت اور تعلیم کے مواقع اتنی ہی تیزی سے مفقود ہوئے ہیں۔
خصوصی پیکجز اور انتظامی معاملات
وزیر اعظم کراچی کا چھٹی بار دورہ کر رہے ہیں، اور دوسری بار پیکج کا اعلان کر رہے ہیں۔ پچھلے اعلان شدہ 126 ارب کے پیکج کا آج بھی شہری انتظار کر رہے ہیں۔ شہریوں کو معلوم ہے کہ یہ پیکج بھی دیگر پیکجز کی طرح جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوگا۔ گزشتہ وفاقی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ سو دن میں کراچی کا مسئلہ حل کر دے گی، لیکن دو سال کے بعد بھی کراچی کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ کراچی کے شہری یہ سمجھتے ہیں کہ اگر صوبے با اختیار اور جمہوری شہری حکومتوں کا میسر نظام رائج ہو، تو کراچی جیسے شہروں کو کسی پیکج یا امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔
شہر کے انتظامی اور سیاسی معاملات چلانے کے لیے ضروری شہری بلدیاتی نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ شہر کے 40 فی صد حصے پر کنٹونمنٹ بورڈز، ڈی ایچ ایز اور وفاقی اداروں کی ملکیت قائم ہے اور رہی سہی کسر صوبائی حکومت نے کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جیسے شہری ترقی کے اہم اداروں پر قبضہ کر کے پوری کر دی ہے، جس سے شہری حکومت مفلوج ہو گئی ہے۔ شہر کی اضلاع میں تقسیم در تقسیم، شہر کے انتظامی معاملات پر وفاق اور صوبائی حکومتوں کی بے جا مداخلت، سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بر خلاف شہر پر کنٹونمنٹ بورڈز اور دیگر مصنوعی اداروں کا تسلط شہر کے جسم کو وحشی درندوں کے بھنبھوڑنے کے مترادف ہے۔
مسئلے کا حل
شہر کے مسئلے کا دائمی حل ایک حقیقی نمائندہ جمہوری، بااختیار شہری حکومت ہی میں مضمر ہے، باقی تمام راستے مزید تباہی اور بربادی کا سامان لیے ہوئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کے تعصبات سے ہٹ کر عوامی مفاد کا ایک چارٹرمرتب کیا جائے جس میں یہ بنیادی مطالبات شامل ہوں:
عوام کی مشاورت سے ایک با اختیار بدلیاتی نظام کا اجرا کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق شہر میں قائم کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈی ایچ ایز ختم کیے جائِیں اور شہر کا کنٹرول منتخب بدلیاتی اداروں ک سپرد کیا جائے۔ کے الیکٹرک اور کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو منتخب بلدیاتی اداروں کے زیر انتظام دیا جائے۔ تمام شہریوں کو آئین کے مطابق رہائش فراہم کی جائے، اور جن خاندانوں کو بے دخل کیا گیا ہے انھیں متبادل رہائش فراہم کی جائے۔
آئین میں درج بدلیاتی اداروں کے اختیارات جن میں تعلیم، صحت، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، فراہمی و نکاسئ آب اور پولیسنگ جیسے شعبے شامل ہیں، حقیقی معنوں میں بحال کیے جائیں۔ شہری مسائل کو لسانی و نسلی تفرق کے لیے استعمال کرنے سے سختی سے گریز کیا جائے۔ بلدیاتی انتخابات متناسب نمائندگی کے تحت کرائے جائیں، اور مزدوروں، عورتوں اور اقلیتی نمائندوں کا انتخاب براہ راست انتخابات کے ذریعے کیا جائے۔ حلقہ بندیاں آبادی اور رقبے پر مبنی ہونی چاہئیں اور کسی بھی قسم کے امتیازی طریقہ کار سے اجتناب کیا جائے۔ شہر کی تمام آبی گزر گاہوں کو صاف کیا جائے اور سمندر پر کی جانے والی تمام ناجائز تجاوزات ختم کی جائیں۔ اور شہر کو پہلے مرحلے میں کم از 5 ہزار بسیں فراہم کی جائیں اور پانی کی سپلائی کا ٹھوس انتظام کیا جائے۔