اتوار, اکتوبر 6, 2024
اشتہار

شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص ذوالفقار بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا، سپریم کورٹ

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 48 صفحات پر مشتمل تفصیلی رائے جاری کردی، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ اضافی نوٹ تحریر کریں گے۔

تحریری رائے میں لکھا گیا کہ ملک اور عدالتیں اس وقت مارشل لا کی قیدی تھیں، آمر کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے جج، عدالتیں عوام کی عدالتیں نہیں رہتیں۔

- Advertisement -

سپریم کورٹ کی رائے میں کہا گیا ہے کہ بھٹو کی پھانسی کا براہ راست فائدہ ضیا الحق کو ہوا، اگر بھٹو کو رہا کردیا جاتا تو وہ ضیا الحق کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے۔

تحریری رائے میں کہا گیا ہے کہ بھٹو کے خلاف جب کیس چلایا گیا اس وقت عدالتوں کی آئینی حیثیت ہی نہیں تھی، ان کے خلاف جب کیس چلا اس وقت میں ملک میں مارشل لا تھا۔

سپریم کورٹ کی رائے میں کہا گیا ہے کہ شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔

رائے میں لکھا گیا ہے کہ گیارہ سال تک ذوالفقارعلی بھٹو ریفرنس سماعت کیلئے مقرر ہی نہ ہوسکا، وہ تمام ججز جنہوں نے ریفرنس پر ابتدائی سماعتیں کیں وہ ریٹائرڈ  ہوگئے جبکہ کیس میں سزائے موت کے لیے شواہد ناکافی تھے اور بھٹو کیخلاف دفعہ 302 لگانے کے ڈائریکٹ شواہد نہیں تھے۔

رائے میں سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ بھٹو پھانسی صدارتی ریفرنس ایپل تھی اور نہ ہی نظر ثانی کی درخواست، آئین یا قانون ایسا میکانزم فراہم نہیں کرتا جس کے تحت سزا کو کالعدم قرار دیا جاسکے، سپریم کورٹ سے نظرثانی خارج ہونے کے بعد بھٹو کی سزا کا فیصلہ حتمی ہو چکا تھا۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ قتل کا الزام ایف ایس ایف نامی فورس کے ذریعے تھا، وقوعہ میں استعمال گولی کا خول ایف ایس ایف کے ہتھیاروں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

تحریری رائے میں کہا گیا کہ عدالتوں نے بھٹو کی پارلیمنٹ میں تقاریر کو بھی فیصلوں میں جواز بنایا جبکہ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کو کسی رکن کے خلاف عدالت میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں