اسلام آباد : سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کی اہل قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں حکومت کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت ہوئی، جس میں کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سنادیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے براہ راست فیصلہ سنایا۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے پشاورہائیکورٹ اور یکم مارچ 2024 کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے میں مخصوص نشستیں حکومت کو دینے کا فیصلہ کالعدم دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف تھا۔
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ 5-8 سے سنایا ، 8 اکثریتی ججز کا فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نے پڑھ کرسنایا تاہم تفصیلی فیصلہ بعدمیں جاری کیا جائے۔
فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اور رہے گی، انتخابی نشان کسی سیاسی جماعت کوالیکشن لڑنے سےنہیں روکتا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 80 ارکان اسمبلی کی فہرست پیش کی، 80 میں سے 39 ارکان کا تعلق پی ٹی آئی سےتھا، پشاور ہائی کورٹ اورالیکشن کمیشن کافیصلہ غیرقانونی تھا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کیلئے درخواستیں 15دن میں جمع کرائے.
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا اہل قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نشستوں سے متعلق فہرست الیکشن کمیشن کوفراہم کرے اور نشستوں کیلئے درخواستیں 15دن میں جمع کرائے۔
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا فیصلے کا اطلاق قومی اسمبلی اورتمام صوبائی اسمبلیوں پر ہوگا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب،کےپی اور سندھ میں بھی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں ، پی ٹی آئی کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت یا آزاد امیدوار تصورنہ کیا جائے۔
اس موقع پر سپریم کورٹ کے باہر اضافی نفری تعینات کی گئی اور سپریم کورٹ کے باہر قیدی وین بھی منگوا لی گئی ہیں.
یاد رہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تیرہ رکنی فل کورٹ نے نو جولائی کو سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تیرہ رکنی فل کورٹ نے نو جولائی کو سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جس کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں دو مشاورتی اجلاس بھی ہوئے تھے۔
مخصوص نشستوں کے کیس میں کب کیا ہوا؟
الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دیں، جس کے بعد الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔
بعد ازاں پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔ جس پر سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ابتدائی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو معطل کر دیا۔
جس پر وفاقی حکومت کی جانب سے آئینی تشریح کا نکتہ اٹھایا گیا اور تین رکنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے سپریم کورٹ میں دستیاب تیرہ ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔
سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر سپریم کورٹ میں کل سات سماعتیں ہوئیں، چھ مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایک سماعت کی، اس کے بعد فل کورٹ نے چھ سماعتیں کیں، فل کورٹ نے پہلی سماعت تین جون کو کی تھی۔
مخصوص نشستوں کی تقسیم
الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیں۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک نوٹیفکیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو ایک ایک مخصوص نشست الاٹ کی ہے۔
سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان اور پیپلز پارٹی کو خواتین کے لیے مختص نشستیں دی گئیں، جس پر پیپلز پارٹی کی سمیتا افضل اور ایم کیو ایم پی کی فوزیہ حمید مخصوص سیٹوں پر منتخب ہوئیں۔
مزید برآں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے سادھو مل عرف سریندر والسائی نے اقلیتی نشست حاصل کی۔
ای سی پی نے مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور جے یو آئی ف کو اقلیتوں کے لیے تین مخصوص نشستیں الاٹ کیں ، جن کا دعویٰ سنی اتحاد کونسل نے کیا تھا۔
مسلم لیگ ن کی نیلم میگھواڑ، پیپلز پارٹی کے رمیش کمار اور جے یو آئی ف کے جیمز اقبال اقلیتی سیٹوں پر منتخب ہوئے۔