جمعہ, اکتوبر 18, 2024
اشتہار

ابنِ مقلہ: عالمِ اسلام کے تین بڑے خطّاطوں میں سے ایک نام

اشتہار

حیرت انگیز

اسلامی دنیا بالخصوص خطّۂ عرب میں خوش نویسی اور فنِ خطّاطی کو ہر دور میں اہمیت دی گئی ہے۔ اس فن کو روحانی مسرّت کے حصول کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے اور اس فن میں کمال و مہارت کو خطّاط اپنے لیے باعثِ برکت و اعزاز تصور کرتے ہیں۔ یہ تذکرہ ہے کہ ابنِ مقلہ کا جو عباسی دورِ خلافت کے ایسے باکمال خطّاط تھے جنھوں نے اس فن کو قواعد و ضوابط کے ساتھ متعدد طرزِ تحریر سے آراستہ بھی کیا۔

ابنِ مقلہ اپنے زمانہ میں اسلام کے علمی و ثقافتی مرکز کہلانے والے بغداد کے تین مشہور خطّاطوں میں سے ایک تھے۔ 20 جولائی 940ء کو ابنِ‌ مقلہ خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ محققین نے استاد خطّاط ابنِ مقلہ کا سنہ پیدائش 886ء لکھا ہے۔ ابنِ مقلہ کا مکمل نام ابوعلی محمد بن علی بن الحسین بن مقلہ تھا۔ انھیں ابنِ مقلہ شیرازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرِ فنِ تحریر اور خطّاط ابنِ مقلہ نے علومِ متداولہ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ فقہ، قرأت، تفسیر اور عربی ادب میں ماہر تھے۔ انشاء اور کتابت و مراسلت پر زبردست گرفت تھی۔

ابنِ مقلہ عباسی دربار میں‌ وزیر بھی رہے اور مؤرخین کے مطابق ان کا اپنے دور کے سیاسی امور میں‌ بڑا عمل دخل تھا۔ تاریخ‌ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ ابنِ مقلہ اپنے ابتدائی زمانہ میں‌ ایک غیرمعروف اور غریب شخص تھے۔ ابنِ کثیر جیسے جیّد نے ابنِ مقلہ کے بارے میں لکھا کہ ان کے حالات ناگفتہ بہ تھے، لیکن قسمت نے پلٹا کھایا تو خلافتِ عباسیہ میں تین مرتبہ وزیر رہے۔ اسی طرح خطّاطی کی تاریخ‌ سے متعلق کتاب میں‌ سیّد محمد سلیم لکھتے ہیں‌ کہ آغازِ کار میں ابنِ مقلہ دفترِ مال (دِیوانی) میں ملازم ہوا تھا۔ یہ ملازمت ایران کے کسی علاقے میں اُسے حاصل ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ ابی الحسن ابنِ فرات کا ملازم ہوا اور بغداد چلا آیا۔ بغداد میں اُس کی قابلیت کے جوہر کھلے اور یہاں اُس کی بیش بہاء قدر دانی بھی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ روم و عرب کی جنگ کے بعد صلح نامہ اُس نے اپنے قلم سے لکھ کر روم بھیجا تھا جو وہاں فن (آرٹ) کے شاہکار کی حیثیت سے مدتوں شہنشاہِ روم کے خزانہ میں موجود رہا۔

- Advertisement -

کہتے ہیں‌ کہ خلیفہ المقتدر باللہ نے 924ء میں ابنِ مقلہ کو وزیر مقرر کیا تھا۔ لیکن پھر ایک سازش کا شکار ہوگئے اور انھیں روپوشی اختیار کرنا پڑی۔ یوں ظاہر ہے کہ ہر قسم کا مرتبہ اور عہدہ ان کے ہاتھ سے چلا گیا، لیکن وقت گزرا تو حالات بہتر ہوئے اور وہ دربار تک پہنچے جہاں انھیں دوبارہ اپنا مقام و مرتبہ حاصل ہوا اور وہ سابق منصب پر فائز ہوئے۔ ابن مقلہ کو خلیفہ راضی باللہ کے زمانہ میں بڑا عروج حاصل ہوا۔ لیکن ایک مرتبہ پھر وہ محلّاتی سازشوں کی وجہ سے درباری مراتب سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس مرتبہ قید و اذیت بھی جھیلنا پڑی۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ ابنِ مقلہ دورانِ‌ قید ہی صعوبتیں جھیلتے ہوئے وفات پاگئے تھے۔

اپنے عروج کے زمانے میں وہ بغداد کی ایک ایسی مشہور شخصیت تھے جس کی فن خطّاطی میں‌ کمال و مہارت کی وجہ سے ہر خاص و عام میں‌ بڑی عزّت تھی۔ ابنِ مقلہ کو عباسی دور میں ان کی قابلیت اور معاملہ فہمی کی وجہ سے اہمیت دی جاتی تھی۔ لیکن پھر اہلِ‌ بغداد نے ان کا زوال بھی دیکھا۔

اکبر نامہ کے مصنّف اور مشہور مؤرخ ابو الفضل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابنِ مقلہ نے آٹھ خط ایجاد کیے جن کا رواج ایران، ہندوستان، بلادِ روم اور توران میں ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں