منگل, اکتوبر 8, 2024
اشتہار

جدوجہدِ آزادی:‌ شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو ذہنیت کو آشکار کیا!

اشتہار

حیرت انگیز

ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مکروفریب، اقتدار پر قبضے کے لیے سازشوں اور حکم رانی کی کوششوں کے خلاف جب ہندوستانی قوم کی بغاوت ناکام ہوگئی تو برطانیہ نے اسے جواز بنا کر یہاں اپنا راج قائم کرلیا۔ لیکن آزادی کے لیے جدوجہد کو نہ روک سکے اور وہ وقت آیا جب انگریزوں کو بٹوارے کا اعلان کرنا پڑا۔

یہ وہ دور تھا جب دو بڑی قومیتیں یا عقائد کے پیروکار یعنی مسلمان اور ہندو انگریزوں کے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے۔ ان کے علاوہ سکھ، پارسی، بودھ اور دوسرے مذہبی اور لسانی بنیاد پر اقلیت کہلانے والے سماجی گروہ بھی متحدہ ہندوستان کی قیادت کے ساتھ تھے اور انگریزوں کے اقتدار سے نجات چاہتے تھے۔ انہی اکثریتی اور اقلیتی اقوام اور گروہوں سے منسلک سیاسی و سماجی راہ نماؤں نے متحد ہو کر انگریزوں کو اپنے وطن سے نکالنے کی تحریک شروع کی تاکہ وہ یہاں اپنی حکومت قائم کرسکیں۔ وطن پرستی زور پکڑ رہی تھی اور اس وقت ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ لگایا جارہا تھا، لیکن ماقبل کئی ایسے واقعات اور سانحے رونما ہو چکے تھے جو یہ ثابت کرتے تھے کہ دراصل ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جو اپنے مذہب، رہن سہن، روایات اور ثقافت کے اعتبار سے ہر طرح جداگانہ شناخت رکھتی ہیں اور اکٹھے نہیں‌ رہ سکتیں۔ یہ مسلمان اور ہندو ہیں جن کا اتحاد غیرفطری اور یہ نعرے محض ایک قابض قوم کو دکھانے کے لیے ہیں اور آزادی کے بعد ان کا بہم رہنا مشکل ہوگا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کا سنہری خواب تحریکِ خلافت کے دوران ہی ادھورا نظر آنے لگا تھا اور جونہی یہ تحریکِ کم زور پڑی ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل اور خوف ناک سلسلہ چل نکلا۔ 1920ء کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے تعلقات بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نذر ہونے لگے۔ اس کشیدگی کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1923ء میں 11، اگلے سال 18، 1925ء میں 16 اور اس کے ایک سال بعد یعنی 1926ء میں 35 اور اگلے ہی برس 37 افسوس ناک واقعات رونما ہوئے جو ہندو مسلم فسادات کا نتیجہ تھے۔ ہر سال ایسے واقعات بڑھتے رہے جب کہ چھوٹے اور معمولی نوعیت کی تکرار اور جھگڑے عام ہوتے جارہے تھے۔

- Advertisement -

ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہندو شروع ہی سے مسلمانوں کو اپنا مطیع و حاشیہ نشیں بنا کر رکھنے کا خواب دیکھتے آئے تھے جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ جس ہندوستان میں‌ رہتے تھے، اس پر صدیوں تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی اور دہلی مغل بادشاہوں کا پایۂ تخت رہا تھا۔ اس نے ہندوؤں میں شدید احساسِ‌ محرومی پیدا کردیا تھا۔ مغل سلطنت کے کم زور پڑ جانے کے بعد اور انگریزوں کی آمد سے قبل بھی یہاں مختلف چھوٹے بڑے علاقے مسلمان حکم رانوں کے زیرِ‌نگیں تھے اور وہ ریاستوں کے راجہ تھے۔ اگرچہ ان ادوار میں ہندو مسلم اتحاد برقرار رکھنے کے لیے ہر سطح پر دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا، لیکن ہندو خود کو محکوم سمجھتے تھے۔ مغل دور میں ہندوؤں کو مذہبی، سماجی اور ثقافتی ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ وہ اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے مگر ان کا محرومی کا احساس مٹ نہ سکا۔

انگریزوں کی آمد کے بعد مخصوص ذہنیت کے حامل ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا۔ وہ انگریزوں سے ساز باز اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرکے اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھنے لگے۔

ہندو مسلم تعلقات خراب کرنے کی ابتدا ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی قیادت میں سَنگَھٹن اور شدھی تحریکیں شروع کیں۔ سَنگَھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ہندوؤں کی تعلیم و تربیت کرنا، انھیں نظم و نسق اور مختلف امور کا ماہر بنانا، اور مخالفین سے اپنا دفاع سکھانا تھا جس کے لیے ایسے اسلحہ کا استعمال بھی سکھایا جاتا جس سے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف کام لینا مقصود تھا۔ ہندو نوجوانوں کو لاٹھیوں، اینٹوں کے ٹکڑوں اور بنوٹ کا دشمن پر استعمال سکھایا جارہا تھا۔

دوسری طرف شدھی تحریک کا شور ہونے لگا جس کا مطلب تھا پاک کرنا۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریات اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو مت ترک کر کے مسلمان ہو گئے تھے انھیں مجبور کرکے دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔ ان حالات میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ محض فریب ہی تھا۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصد ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانا تھا اور اسے بڑے بڑے ہندو راہ نماؤں کی حمایت حاصل ہوگئی تھی۔ ایسی تحریکوں کے انتہا پسند ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف اپنے خبثِ باطن کا اظہار شروع کر دیا اور ڈاکٹر مونجے نے اودھ ہندو سبھا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح انگلستان انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں اور جرمن جرمنوں کا ملک ہے اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔‘‘ ہندو چاہتے تھے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یا انھیں ہندو مت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات وسیع پیمانے پر ہونے لگے اور ان کا دائرہ پھیلتا جارہا تھا اور ہندو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے، لیکن مسلم زعما بالخصوص قائدِاعظم ان مایوس کن حالات میں بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ تاہم جلد ہی انھیں بھی احساس ہو گیا کہ علیحدہ وطن کا حصول ناگزیر ہے۔

مصوّرِ پاکستان ڈاکٹر علّامہ اقبال کی بات کی جائے تو وہ برطانوی راج میں ہندوستانی آئین کے مطابق مسلمانوں کے لیے جداگانہ طرزِ‌ انتخاب سمیت علیحدہ ریاست کو اُس وقت بھی اہمیت دے رہے تھے جب قائداعظم سمیت دیگر مسلمان راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے نعروں کے پیچھے چھپی ہندوؤں کی ذہنیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔ علّامہ اقبال نے ایک موقع پر واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں بحثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور ایک علیحدہ سیاسی پروگرام بنانا چاہیے۔

بیسویں صدی كے آغاز پر جو حالات پیدا ہوئے اور فسادات کے علاوہ سیاسی میدان میں مسلمان قیادت پر جب ہندوؤں کا مکروفریب کھل گیا تو اکابرین نے علیحدہ مسلم تشخص کی بات کی اور الگ سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دے کر آزادی کی تحریک شروع کردی۔ اس راستے میں بے شمار قربانیاں دے کر مسلمانوں نے 14 اگست 1947ء کو پاکستان حاصل کیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں