منگل, اکتوبر 8, 2024
اشتہار

ناسخ کا تذکرہ جنھیں طنزاً پہلوانِ سخن بھی کہا گیا

اشتہار

حیرت انگیز

اردو شاعری کے کلاسیکی دور کے ممتاز شاعر ناسخ کو رجحان ساز بھی کہا جاتا ہے۔ وہ استاد شاعر کہلائے جن کو اصلاحِ زبان کے لیے کاوشوں‌ کے سبب بھی یاد رکھا جائے گا۔ ناسخ دبستانِ لکھنؤ کا ایک اہم اور بڑا نام ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

شیخ امام بخش ناسخ اردو شاعری میں نام و مرتبہ پانے کے علاوہ دبستانِ لکھنؤ کے بانی مشہور ہوئے۔ غزل میں ناسخ سے پہلے لکھنؤ بھی دلّی ہی کا معترف تھا لیکن بعد میں سیاسی اثرات ایسے پڑے کہ لکھنؤ والوں میں، زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی جداگانہ شناخت کی طلب جاگ اٹھی۔ دلّی کی زبان کا شور و غوغا برائے نام رہ گیا اور سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی وجہ سے منظر نامہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اس زمانے میں جب ناسخ نے دلّی کا لب و لہجہ اور لفظیات چھوڑ کر شاعری کی تو لکھنؤ میں ان کا چرچا ہونے لگا اور سبھی ان کے اسلوب کو اپنانے لگے۔ ناسخ نے جو بنیاد رکھی تھی، ان کے شاگردوں نے اس پر کام کیا اور اس طرح باقاعدہ دبستانِ لکھنؤ وجود میں آیا۔ یہ اسلوب اور اندازِ بیان اردو شاعری پر چھا گیا۔ نازک خیالی، پُرشکوہ اور بلند آہنگ الفاظ کا استعمال اور داخلیت سے زیادہ خارجیت پر اس دور کے شعراء توجہ دینے لگے۔

ناسخ نے اپنے زمانے میں نہ اردو صرف و نحو پر کام کیا بلکہ روز مرّہ اور محاورات کی چھان پھٹک کی اور اس کے قاعدے بھی مقرر کیے۔ ناسخ نے اردو شاعری کو سنگلاخ زمینوں اور الفاظ کا اسیر ضرور بنایا، لیکن وہی تھے جن کے طفیل لکھنؤ نے شعر و سخن میں کمال اور زبان و بیان میں‌ ایسا معیار اور بلندی پائی کہ لکھنؤ کی زبان بھی کسوٹی بن گئی۔

- Advertisement -

امام بخش ناسخ کا بچپن والد کے سائے سے محروم رہا۔ ناسخ 1772ء میں پیدا ہوئے اور 16 اگست 1838ء کو انتقال کیا۔ فیض آباد کے ناسخ کو والد کی وفات کے بعد لکھنؤ کے ایک تاجر نے گود لیا اور اسی نے تعلیم و تربیت کی۔ مال دار گھرانے میں‌ رہنے کے سبب ان کی اچھی پرورش ہوئی اور اعلیٰ تعلیم پائی۔ بعد میں وہ اسی تاجر کی جائیداد کے وارث بھی بنے۔ یوں ناسخ خوش حال اور فارغ البال تھے۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی۔

اس زمانے میں پہلوانی اور کسرت بھی ایک مفید مشغلہ سمجھا جاتا تھا۔ ناسخ خوب تن و توش کے تھے۔ ورزش کا شوق تھا اور شروع ہی سے پھرتیلے تھے۔ خوش حال گھرانے کے فرد تھے تو عمدہ غذا اور خوراک اچھی تھی۔ محمد حسین آزاد کے بقول ناسخ کے تین شوق تھے۔ اوّل کھانا، دوسرا ورزش کرنا اور تیسرا شوق شاعری۔ انھیں حاسد طنزاً پہلوانِ سخن بھی کہتے تھے۔

ناسخ اپنی شاعری میں لفظوں کے نئے نئے تلازمے تلاش کر کے ان کے لئے نئے استعارے وضع کرتے۔ وہ بنیادی طور پر لفظوں کے آدمی تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک معنیٰ ثانوی اہمیت رکھتے تھے۔ یہ کہنا درست ہے کہ ان کا کلام عربی کے ثقیل اور نہایت بھاری الفاظ سے بوجھل ہے۔ اکثر اشعار بے مزہ اور بہت سے شعروں کا مضمون رکیک بھی ہے۔ لیکن بعض کلام میں‌ نزاکتِ خیال اور معنی آفرینی بھی ملتی ہے۔ ناسخ کی علمیت اور زبان دانی کا اعتراف کرتے ہوئے اردو شاعری کے نقّاد یہ بھی کہتے ہیں ناسخ تصویر تو بہت خوب بناتے تھے لیکن وہ اس میں روح پھونکنے سے عاجز رہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں