بدھ, اکتوبر 9, 2024
اشتہار

ماچسؔ لکھنوی: اردو کے ایک مزاحیہ شاعر کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

ماچسؔ لکھنوی سے آج شاذ ہی کوئی واقف ہوگا۔ یہ نام اور اس شخصیت کا تذکرہ ہمارے قارئین کی اکثریت کے لیے نیا بھی ہوگا اور انوکھا بھی۔ ماچس لکھنوی ایک مشہور مزاحیہ شاعر گزرے ہیں جن کا اصل نام مرزا محمد اقبال تھا۔ لیکن مزاحیہ ادب میں انھیں ماچسؔ لکھنوی کے قلمی نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔

ادب تخلیق کرنے والا کوئی بھی فرد اپنے تمام دماغی اوصاف، اور حواس کو برروئے کار لاتا ہے۔ شوخیٔ مزاج اور شگفتہ طبیعت بھی اس میں‌ اہمیت رکھتی ہے اور ہنسی مذاق انسان کی وہ عادت یا خصوصیت ہے جس کی ادب میں بھی ناگزیر حیثیت ہے۔ ایک شاعر کی بات کی جائے تو وہ ہنستے گاتے آگے بڑھنے اور زندگی کی تلخیوں کو قہقہے میں اڑانے کی سکت بھی رکھتا ہے۔ اس کی شاعری میں مزاح کے ساتھ زندگی کی ناہمواریوں اور انسانوں کے غلط رویوں پر طنز بھی ملتا ہے جس کا مقصد اصلاح ہوتا ہے۔ ماچس لکھنوی نے زندگی کے تمسخر انگیز پہلوؤں کو اپنی شاعری میں سمویا ہے۔

ماچس لکھنؤی کو اکثر ایم ایم اقبال کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ وہ 1918ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی اور شاعری پر اردو کے سب سے مشہور تذکرہ نویس مالک رام نے ایک باب باندھا ہے اور اس میں ماچس لکھنوی کا سنہ پیدائش 1913ء لکھا ہے۔ ان کے مطابق وہ اَوَدھ کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے والد میرزا فرخندہ بخت کے پوتے تھے جن کا نام میرزا مہدی حسین تھا۔ ماچس لکھنوی کی عمر ابھی تیرہ چودہ سال کی تھی کہ شاعری کی جانب میلان بڑھنے لگا۔ شاعری میں وہ انور حسین آزردہ لکھنؤی کے ایک شاگرد سے اصلاح لینے لگے اور اُن کی وفات کے بعد آزردہ لکھنؤی جب لکھنؤ آئے تو اُن سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔ ماچس لکھنوی پہلے پہل انجمن بہارِ ادب لکھنؤ کے رکن بنے اور ادبی حلقوں میں پہچانے گئے۔ ان کا اندازِ سخن مزاح کی جانب زیادہ رہا اور اُن کی وجہ شہرت بھی مزاح نگاری بنی۔ ماچس کا کوئی مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا۔ کہتے ہیں ان کی یادداشت بہترین تھی۔ ماچس کی نظمیں اودھ پنچ اخبار اور شوکت تھانوی کے اخبار ’’سرپنچ‘‘ میں شائع ہوتی رہیں۔ شوکت تھانوی نے ماچس لکھنوی کو ’’ظریفُ الملک‘‘ کا لقب دیا تھا۔

- Advertisement -

ماچس کے والد میرزا مہدی حسین 1949ء میں وفات پاگئے تھے۔ مالی حالات ایسے تھے کہ ماچس مدرسہ میں مڈل سے آگے نہ بڑھ سکے۔ کچھ تعلیم گھر پر حاصل کی لیکن یہ سلسلہ اس سے زیادہ نہ بڑھ سکا۔

ماچس لکھنؤی کینسر کے مرض کے سبب 26 اگست 1970ء کو وفات پاگئے تھے۔ لکھنؤ ہی میں‌ انھیں سپردِ‌‌ خاک کیا گیا۔ ماچس لکھنوی کا کلام ملاحظہ کیجیے۔

آرزوئیں ہوں جس قدر اے دل
سب ہیں بے کار اس سوال کے بعد
عشق پر آئے گی بہار اب تو
ان کے والد کے انتقال کے بعد

ایک نمکین غزل کے تین اشعار دیکھیے

نظر پر میری اس بت کی نظر یوں چھائی جاتی ہے
کہ جیسے ٹوکری پر ٹوکری اوندھائی جاتی ہے

پلٹتی ہے مری آہ رسا یوں ان کے گھر جا کر
کوئی جادو کی ہانڈی جس طرح پلٹائی جاتی ہے

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں
تو ہفتوں کیا مہینوں کھوپڑی سہلائی جاتی ہے

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں