اتوار, نومبر 10, 2024
اشتہار

کلیم عثمانی: بے مثال ملّی نغمات اور لازوال فلمی گیتوں کا شاعر

اشتہار

حیرت انگیز

کلیم عثمانی کے تحریر کردہ متعدد ملّی نغمات آج بھی ہم جب سنتے ہیں تو اپنے اندر ایک نیا جوش و جذبہ، توانائی اور ولولہ محسوس کرتے ہیں کلیم عثمانی 2000ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے، لیکن ان کا نام ان کے گیتوں کی طرح ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔

معروف گیت نگار کلیم عثمانی ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے بھی اردو ادب میں پہچانے جاتے ہیں۔ کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ ضلع سہارن پور، دیو بند میں 28 فروری 1928 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد فضل الٰہی بیگل بھی شاعر تھے۔ کلیم عثمانی نے علمی و ادبی ماحول میں پرورش پائی اور شاعری ان کا مشغلہ ٹھیرا۔ شاعری کے میدان میں انھوں نے کلیم عثمانی کے نام سے شناخت بنائی۔ ان کا خاندان قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آبسا تھا اور یہیں کلیم عثمانی نے بطور شاعر اپنی شہرت اور شناخت کا سفر طے کیا۔

وہ ممتاز شاعر احسان دانش کے شاگرد رہے۔ کلیم عثمانی لاہور، کراچی اور پاکستان بھر میں تمام بڑے مشاعروں میں‌ مدعو کیے جاتے جہاں وہ ترنم سے اپنا کلام سنا کر داد سمیٹتے تھے۔ کلیم عثمانی نے غزل گوئی سے اپنا شعری سفر شروع کیا تھا اور پھر فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ پاکستانی فلم بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے لیے تحریر کردہ کلیم عثمانی کے گیت بہت مقبول ہوئے اور ان کی بدولت کلیم عثمانی کو فلم انڈسٹری میں مزید کام ملا۔

- Advertisement -

فلم راز کا ایک مقبول گیت جس کے بول تھے، میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا….. کلیم عثمانی نے لکھا تھا جسے سرحد پار بھی بہت پسند کیا گیا۔ جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب اور نازنین نامی فلمیں بھی کلیم عثمانی کے ن غمات سے سجی ہوئی تھیں۔ ان کے یہ گیت کئی بڑے گلوکاروں کی آواز میں ریڈیو‌ سے نشر ہوئے اور پاکستان بھر میں مقبول تھے۔

1973 میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبولِ عام گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ملّی نغمات کی بات کی جائے تو کلیم عثمانی کے گیت ہماری آزادی کا خوب صورت ترانہ اور پاکستان کی پہچان اجاگر کرنے کا ذریعہ ہیں۔ "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور "یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” کلیم عثمانی ہی کے تحریر کردہ ملّی نغمات ہیں۔ شاعر کلیم عثمانی کو لاہور کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

کلیم عثمانی کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی
پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح

بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں