جمعہ, نومبر 15, 2024
اشتہار

یومِ وفات:‌ انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش کرنے والا آغا بابر

اشتہار

حیرت انگیز

اردو افسانہ نگاری میں ہی نہیں آغا بابر نے ادبی صحافت میں بھی اپنے توانا قلم اور تخلیقی صلاحیتوں کی بناء پر منفرد پہچان بنائی اور علمی و ادبی حلقوں میں نام پیدا کیا۔ آغا بابر 1998ء میں آج ہی کے روز امریکہ میں انتقال کرگئے تھے۔

آغا بابر نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا تھا، لیکن جلد ہی نثر کی طرف مائل ہوگئے اور خاص طور پر افسانہ نگاری میں پہچان بنائی۔ وہ 31 مارچ 1919ء کو بٹالہ، ضلع گور داس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن جہانِ ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے مشہور ہوئے۔ تقسیم کے بعد آغا بابر نے ہجرت کی اور پاکستان چلے آئے۔ یہاں ان کی تخلیقی صلاحیتوں نے شاعری سے ہٹ کر افسانہ نگاری میں طبع آزمائی پر آمادہ کیا تو وہ کہانیاں لکھنے لگے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں اردو افسانہ نگاری میں دو واضح رجحانات نظر آتے تھے جس میں ایک طرف تو افسانہ نگار فرد کی بے بسی اور مجبوری کو موضوع بناتے دکھائی دیتے ہیں اور دوسرے افسانہ نگار خواب و خیال کی رنگینیوں، رعنائیوں اور فطری مسرتوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان کے درمیان اپنی تخلیقات کے سبب پہچان بناتے ہوئے آغا بابر نے بھی انسانی رشتوں، تعلقات اور جنس کو موضوع بنایا اور ان کے افسانوں میں فرد کے جذبات کی عکاسی نظر آتی ہے۔ نقادوں کے مطابق آغا بابر کے افسانے انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش ہیں۔

"باجی ولایت” آغا بابر کا ایک یادگار افسانہ ہے جس کا موضوع جنس ہے۔ آغا بابر کے افسانوں کا موضوع عورت، جنسی الجھنیں اور عورت کے احساسات و جذبات ہیں۔ "بیوگی، مریض، روح کا بوجھ، چال چلن جیسے افسانے آغا بابر کے اسلوب کے ساتھ اپنی مؤثر پیش کاری کے سبب ان کی پہچان ہیں۔

- Advertisement -

آغا بابر گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ مشہور افسانہ نگار اور مؤرخ عاشق حسین بٹالوی اور ممتاز قانون دان اعجاز حسین بٹالوی کے بھائی تھے۔ آغا بابر نے فلموں کے لیے مکالمہ نویسی اور ڈرامے بھی لکھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ عسکری ادارے کے ایک جریدے مجاہد اور ہلال سے بحیثیت مدیر منسلک رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ امریکا چلے گئے تھے اور وہیں انتقال کے بعد ان کی تدفین ہوئی۔

آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لبِ گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیشِ عشق بھی شایع ہوئے۔

آغا بابر نے اپنی سوانح عمری لکھنا شروع کی تھی، لیکن فرشتۂ اجل نے انھیں‌ مہلت نہیں دی اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں