حسینہ واجد حکومت کا تختہ الٹنے والے اب بنگلہ دیشی صدر محمد شہاب الدین کو ہٹانے پر مصر ہیں اور ان کے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اگست میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے 16 سالہ اقتدار کا دھڑن تختنہ کرنے والے طلبہ انقلابی تحریک کی جانب سے اب صدر محمد شہاب الدین پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اگر وہ مستعفی ہوتے ہیں تو ملک آئینی بحران سے دوچار ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ اکتوبر کے آغاز میں صدر بنگلہ دیش محمد شہاب الدین کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ شیخ حسینہ واجد نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ یہ بیان جاری ہوتے ہی امن کی طرف گامزن بنگلہ دیش میں ایک بار پھر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
گزشتہ ہفتے سیکڑوں افراد کی صدارتی کمپاؤنڈ میں داخلے کے دوران پولیس سے جھڑپ ہوگئی تھی جس میں 30 افسران اور کئی مظاہرین زخمی ہوئے تھے۔
صدر کے اس بیان کے فوری بعد عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی کابینہ میں خدمات انجام دینے والے طلبہ رہنما آصف نذرل نے ان کے بیان کو عہدے کی خلاف ورزی قرار دیا تھا جس کے بعد انقلابی تحریک کی جانب سے بنگلہ دیش کے صدر سے فوری مستعفی ہونے اور ان کے مواخذے کا مطالبہ کیا گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
اس صورتحال پر عبوری حکومت کے میڈیا ترجمان شفیق العالم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ صدر کی برطرفی کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ سیاسی اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔‘ دریں اثنا حکومتی ترجمان اور وزیر اعظم محمد یونس کی کابینہ میں وزیر سیدہ رضوانہ حسن نے صدر محمد شہباب الدین کو ہٹانے کے حوالے سے بات چیت کی تصدیق کی ہے۔
سیدہ رضوانہ حسن نے صحافیوں کو بتایا کہ ’اس بات پر لازمی غور کیا جائے کہ انقلاب کے بعد بننے والی حکومت میں ایسے صدر کو برقرار رکھنا چاہیے جسے ایک آمرانہ حکومت نے منتخب کیا ہو۔
دوسری جانب صدر کے استعفیٰ پر عملدرآمد کے لیے کئی آئینی پیچیدگیاں راہ کی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ صدر کا مواخذہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت درکار ہے، جس کے بعد اسپیکر عہدہ سنبھالیں گے۔ تاہم شیخ حسینہ واجد کی معزولی کے بعد پارلیمنٹ معطل ہو گئی تھی جس کے بعد صدر کو ہٹانے اور نئے صدر کے انتخاب کے عمل پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔