ن م راشد کبھی اپنے دور کے دیگر شعرا کی طرح مقبول عام نہیں رہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ راشد کی شاعری میں مختلف اجزا کا جو امتزاج ہے وہ فکری اور جذباتی رجحانات کے تصادم، ردّعمل اور ہم آہنگی کا اک مسلسل عمل ہے جس کو سمجھنا اور جذب کرنا آسان نہیں۔ اس کے لیے خاص استعداد کے ساتھ دماغ سوزی کی ضرورت پڑتی ہے۔ البتہ اردو کی جدید نظم ہیئت کے اظہار کے نئے زاویوں اور زبان و بیان کے تجربات میں ہمیشہ راشد کی مرہون منت رہے گی۔
راشد صاحب کی اردو، فارسی، انگریزی اور دوسری کئی زبانوں کے کلاسیکی و جدید ادب پر گہری نظر تھی۔ شاید اسی باعث ان کے تخیل کا افق بہت وسیع اور ان کے کلام میں تفکر کا عنصر غالب رہا۔ بڑے بڑے نام اور علمی و ادبی شخصیات ن م راشد سے مرعوب تو تھے ہی، لیکن ان کی شاعری اور فکر کو تنقید کا نشانہ پر بھی رکھا اور اکثر ن م راشد کے افکار اور ان کی شاعری کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا۔ اس ضمن یہ دل چسپ واقعہ ادبی تذکروں پر مبنی کتب میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
ایک روز منٹو صاحب (سعادت حسن منٹو) بڑی تیزی سے ریڈیو اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہو رہے تھے کہ وہاں برآمدے میں مڈگارڈوں کے بغیر ایک سائیکل دیکھ کر لمحہ بھر کے لئے رک گئے، اور پھر دوسرے ہی لمحے ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں مسکراہٹ کی ایک چمکیلی سی لہر دوڑ گئی اور وہ چیخ چیخ کر کہنے لگے۔ "راشد صاحب، راشد صاحب، ذرا جلدی سے باہر تشریف لائیے۔” شور سن کر ن۔ م۔ راشد کے علاوہ کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک اور ریڈیو اسٹیشن کے دوسرے کارکن بھی ان کے گرد جمع ہوئے۔
"راشد صاحب، آپ دیکھ رہے ہیں اسے، منٹو نے اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ بغیر مڈگارڈوں کی سائیکل! خدا کی قسم سائیکل نہیں، بلکہ حقیقت میں آپ کی کوئی نظم ہے۔