پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن ( پی آئی اے ) کسی زمانے میں وطن عزیز کا فخر اور سر کے تاج کا درجہ رکھتی تھی لیکن اس کے ساتھ نجکاری کے نام پر گزشتہ روز جو بھونڈا مذاق کیا گیا وہ افسوسناک ہے۔
پی آئی اے کی تاریخ پر نظر دہرائی جائے تو یکم فروری 1955 کو پی آئی اے کی پہلی غیر ملکی پرواز نے کراچی سے لندن براستہ قاہرہ کیلئے اڑان بھری، اس ایئر لائن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ ایشیا کی پہلی ایئر لائن ہے کہ جس نے سب سے پہلے جیٹ طیاروں کو اپنے بیڑے میں شامل کیا۔
قومی ائیرلائن کیلیے سال 1956ء میں نئے جہاز خریدے گئے، سال 1962ء میں اس ایئرلائن نے تاریخی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے لندن سے کراچی تک کا فاصلہ چھ گھنٹے 43 منٹ میں طے کیا۔
بعدازاں یہ ایئرلائن ترقی کی منازل طے کرتی رہی، یہاں تک کہ سال 1985ء میں امارات ایئر لائن کا آغاز بھی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) سے طیارے لیز پر لے کر کیا گیا تھا۔
پی آئی اے دنیا کی پہلی نان کمیونسٹ ایئر لائن تھی جس نے چین میں لینڈ کیا، پہلی ایئر لائن جس نے ماسکو کے راستے ایشیا کو یورپ سے منسلک کیا، دنیا کی یہ پہلی ایئر لائن ہے کہ جس نے دوران پرواز مسافروں کی تفریح کیلیے موویز اور میوزک کو متعارف کرایا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی آئی اے نے سال 1967 میں اس وقت آئی بی ایم کمپیوٹر خریدا جب لوگ کمپیوٹر کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔
اس کے علاوہ روشنیوں کے شہر کراچی کا سنہرا دور جب یہاں 40 ایئر لائنز کمپنیاں لینڈ کیا کرتی تھیں اور ان میں سے 30 کمپنیوں کے فضائی اور زمینی عملے کی تربیت کا کنٹریکٹ پی آئی اے کو ملا۔
عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے مشہور و معروف نعرہ ’باکمال لوگ لاجواب سروس‘ اور ’گریٹ پیپل ٹو فلائی ودھ‘ پی آئی اے کے نام کیا۔
پی آئی اے کی نجکاری، اتنی کم بولی لگنے کی کیا وجوہات ہیں؟