جمعرات, دسمبر 12, 2024
اشتہار

اورنگی میں مبینہ پولیس مقابلے میں 2 نوجوانوں کی ہلاکت، ایس ایس پی انکوائری کی سنسنی خیز تفصیلات سامنے آ گئیں

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی: اورنگی ٹاؤن، پیر آباد میں مبینہ پولیس مقابلہ مشکوک قرار دے دیا گیا ہے، واقعے میں دو نوجوانوں کی جان لی گئی تھی۔

اورنگی کے علاقے پیر آباد میں مبینہ مقابلے میں 2 مبینہ ملزمان کی ہلاکت پر ایڈیشنل آئی جی کراچی نے ایس ایس پی ساؤتھ ساجد سدوزئی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی، جس نے انکوائری مکمل کرنے کے بعد مقابلے کو مشکوک قرار دے دیا ہے اور کیس کی مکمل تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کر دی ہے۔

12 صفحات پر مبنی رپورٹ ایڈیشنل آئی جی کراچی کو ارسال کی گئی ہے، جس کے مطابق تحقیقاتی ٹیم نے مدعی مقدمہ سمیت 15 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے، تحقیقاتی افسر نے ملنے والے تمام شواہد، ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے کیس کے بارے میں کہا کہ ابھی فارنزک اور کیمیائی تجزیاتی رپورٹیں زیر التوا ہیں، اور اہم ڈیجیٹل اور جسمانی شواہد کے مزید تجزیے کی ضرورت ہے، اس لیے اس اسٹیج پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن ابتدائی تحقیقات کے دوران کچھ نتائج سامنے آئے ہیں۔

- Advertisement -

رپورٹ کے مطابق چھت پر بنائی گئی ویڈیو میں لڑکی کو یرغمال بتایا گیا تھا، لیکن ویڈیو کی جانچ کے بعد یرغمال بنانے جیسے شواہد نہیں ملے، ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ 16 گولیاں پولیس نے اور 3 ملزمان نے چلائیں، لیکن اتنی تنگ سی جگہ پر 19 گولیاں چلائے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، جب کہ گولیاں چھت، دیواروں یا دروازوں پر لگنی چاہیے تھیں، صرف ایک گولی واش روم کے دروازے پر لگی جس کی ڈائریکشن مشتبہ ہے، اس صورت حال پر کئی سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔

بلاول اور نقاش

رپورٹ کے مطابق میڈیکل سے پتا چلے گا کہ مبینہ ملزمان کو کتنی دوری سے گولیاں لگیں، پولیس اہلکار تنویر کے پیر پر اعشاریہ 3 ضرب اعشاریہ 5 کا زخم ہے، گولی اگر لگی تو دوسری طرف سے نکلنے کا نشان موجود نہیں ہے، اس کی میڈیکل رپورٹ سامنے آنے کے بعد مزید واضح ہو سکے گا، بتایا گیا کہ ملزمان نے پہلی منزل پر پہنچتے ہی ڈی وی آر توڑ دیا تھا، سوال یہ ہے کہ ملزمان ڈی وی آر کے محل وقوع سے کیسے واقف تھے؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر ملزمان واردات کے بعد ڈی وی آر تباہ کرتے ہیں، ڈی وی آر توڑنا معاملے کو مشکوک بناتا ہے، ڈی وی آرسے تمام واقعات کا پتا چل سکتا تھا، ایف آئی آر میں کئی جگہ پر بے ضابطگیاں کی گئی ہیں، ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ غیر ضروری طور پر شامل کیا گیا، تحقیقات کے دوران دہشت گردی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

رپورٹ کے مطابق ایف آئی آر میں مقابلے کا وقت اور دیگر کئی باتیں غلط بتائی گئیں، تحقیقات میں پتا چلا کہ مبینہ ملزمان کے گھر میں داخل ہونے کے 1 گھنٹے بعد مبینہ مقابلہ ہوا، کیس میں تفتیش کے دوران ڈیجیٹل فارنزک سے 3 خواتین منزہ، لائبہ اور صابرہ کے بارے میں پتا چلا جن سے تحقیقاتی ٹیم نے پوچھ گچھ کی، مبینہ ہلاک ملزم بلاول کا لائبہ سے 3 سال سے تعلق تھا، رپورٹ کے مطابق لائبہ نے بتایا کہ بلاول نے مالی پریشانیوں کا ذکر کیا تھا۔

لائبہ کے مطابق بلاول کو 2 برقعے ٹک ٹاک بنانے کے لیے دیے تھے، جو بعد میں واردات میں استعمال ہوئے، لائبہ کی بہن منزہ مدعی مبارک شاہ کے بھائی کے بچوں کی ٹیوٹر ہے، واقعے سے قبل منزہ اور بلاول میں کئی مرتبہ کالز کا تبادلہ ہوا، واردات کے مقام پر بلاول نے کزن تیمور کو فون کر کے مشکل میں پھنسنے کا بتایا، رپورٹ کے مطابق منزہ اور لائبہ نے نہ صرف فون چھپایا بلکہ ڈیٹا بھی ڈیلیٹ کر دیا۔

تیسری خاتون صابرہ مبارک شاہ کی بھتیجی اور اسی عمارت کی رہائش پذیر تھی، منزہ اور صابرہ کا صبح 11 سے دوپہر ڈھائی بجے تک رابطہ رہا، منزہ بلاول اور صابرہ دونوں سے مسلسل رابطے میں تھی، رپورٹ کے مطابق صابرہ کی لوکیشن بھی مسلسل جائے وقوعہ کی آ رہی تھی، سی ڈی آر کے بعد بلاول اور تین خواتین کے رابطوں کا انکشاف ہوا۔

تحقیقاتی افسر نے متعلقہ ایس ایس پی انویسٹگیشن کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کے ساتھ مشورے بھی دیے ہیں کہ ہتھیاروں کی فارنزک کے ساتھ کرائم سین کا دوبارہ دورہ کیا جائے، میڈیکل رپورٹ سے تعین ہوگا کہ گولیاں کتنی دوری سے ماری گئیں، ڈی وی آر کو فارنزک کے لیے لیبارٹری بھجوایا جائے، جس سے چھیڑ چھاڑ کا پتا چلے گا اور اہم شواہد مل سکیں گے، مبینہ ملزم بلاول کے موبائل فون کا جامع فارنزک کروایا جائے، جے آئی ٹی بلاول سے رابطے میں رہنے والے افراد کو شامل تفتیش کرے، تضاد دور کرنے کے لیے تمام شواہد کا فارنزک کروایا جائے، اور ایف آئِی آر اور سیزر میمو کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔

Comments

اہم ترین

نذیر شاہ
نذیر شاہ
نذیر شاہ کراچی میں اے آر وائی نیوز کے کرائم رپورٹر ہیں

مزید خبریں