الیاس کاشمیری پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام تھا جن کو بطور ولن فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور خاص طور پر ان کی پنجابی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔ 12 دسمبر 2007ء کو الیاس کاشمیری انتقال کرگئے تھے۔ آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔
اپنے وقت کے اس کام یاب ولن کی زندگی کا ایک المیہ یہ تھا کہ فلم سے دور ہونے کے بعد وہ نہ صرف گھر تک محدود ہوگئے تھے بلکہ احساسِ گناہ کا شکار بھی تھے۔ انھیں متعدد جسمانی عوارض بھی لاحق تھے جن میں ذیابیطس ایسا مرض تھا جس کے سبب وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوچکے تھے۔ اس پر ان کو یہ احساس ستانے لگا کہ ان بیماریوں اور جسمانی تکالیف کی وجہ ان کی فلمی دنیا سے وابستگی ہے۔
معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں لکھا، الیاس کاشمیری نے نصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن ولن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل ولن کا کردار ہی کرتے رہے۔
25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے الیاس کاشمیری نے مجموعی طور پر 547 فلموں میں کردار نبھائے جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔
فلم نگری میں قدم رکھنے کے لیے الیاس کاشمیری نے 1946ء میں اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی کا رخ کیا تھا۔ وہ دراز قد اور خوبرو نوجوان تھے اور انھیں یقین تھا کہ فلموں میں کام مل جائے گا۔ الیاس کاشمیری کو فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے ساتھ ہیرو کا رول مل گیا اور چند برس بعد تقسیمِ ہند کا اعلان ہوگیا۔ الیاس کاشمیری بھی ہجرت کر کے لاہور آگئے۔ یہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول دیا۔ یہ آزادی کے بعد پاکستان میں الیاس کاشمیری کی پہلی فلم تھی۔ بطور اداکار ان کی اُردو فلموں کی تعداد بہت کم ہے۔ 1956ء میں ’ماہی منڈا‘ الیاس کاشمیری کی پہلی کام یاب فلم کہلائی جاسکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لازوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔
الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا تھا۔ 73ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد پائی۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں جن میں الیاس کاشمیری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔
ولن کے روپ میں فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے والے الیاس کاشمیری کی زندگی کے آخری ایّام میں ان کا واحد ساتھی ایک گھریلو ملازم تھا۔ الیاس کاشمیری لاہور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔