منگل, جنوری 14, 2025
اشتہار

پروین شاکر: مقبول شاعرہ جو تلخیِ حیات سے “خود کلامی” کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی!

اشتہار

حیرت انگیز

عورت ذات کی زندگی کے المیوں، دکھوں اور کرب کو بیان کرنے اور رومانوی شاعری سے ملک گیر مقبولیت حاصل کرنے والی پروین شاکر کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ایسی شاعرہ تھیں جن کی ذاتی زندگی بھی تلخیوں اور رنجشوں کے سبب بے رنگ اور یاسیت کا شکار رہی۔

شوہر سے علیحدگی کے بعد ان کی کل کائنات اکلوتا بیٹا مراد تھا۔ نوجوانی میں پروین شاکر نے طلاق کے بعد اپنی زندگی کا مشکل وقت دیکھا، لیکن بیٹے دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کے ساتھ شعر و شاعری اور ادبی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئیں اور زندگی کا سفر جاری رکھا۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ زیادہ عرصہ اپنے بیٹے کے ساتھ نہ رہ سکیں اور عین جوانی میں ٹریفک حادثہ میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ یہاں ہم پروین شاکر کے مشہور اشعار اور ان کی زندگی کے حالات مختصراً پیش کررہے ہیں۔

حادثہ اور ماہِ تمام

26 دسمبر 1994ء کو پروین شاکر اسلام آباد میں صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جانے کے لیے روانہ ہوئی تھیں کہ ایک ٹریفک سگنل پر ان کی کار موڑ کاٹتے ہوئے کسی تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ شدید زخمی پروین شاکر کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ انھیں اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ پروین شاکر کی ناگہانی موت پر شعرو ادب کی دنیا سوگوار ہوگئی اور ان کے مداح اشک بار نظر آئے۔

- Advertisement -

یہ بھی پڑھیے: پہلے مقبول ترین شعری مجموعے میں شامل وہ غزل جو پروین شاکر کی پہچان بنی

ابتدائی حالاتِ زندگی

اردو زبان کی اس مقبول شاعرہ نے 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد سید ثاقب حسین بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کر تے تھے۔ اسی نام کو پروین نے اپنایا اور پروین شاکر مشہور ہوئیں۔ وہ ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ زمانہ طالبعلمی میں مباحث میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ وہ کم عمر تھیں جب شعر گوئی کا آغاز کیا اور جلد ہی ملک بھر میں‌پہچانی جانے لگیں۔

تعلیم

پروین شاکر نے انگریزی ادب اور لسانیات میں گریجویشن کے بعد انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اور پھر 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طورپر خدمات انجام دیں۔ 1990ء میں انھوں نے ٹرینٹی کالج سے مزید تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔

شادی اور علیحدگی

1976ء میں پروین شاکر کی شادی ان کے خالہ زاد ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ پروین شاکر ایک بیٹے کی ماں بنیں۔ لیکن ازدواجی زندگی تلخیوں‌ کا شکار رہی اور 1987ء میں ان کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔

خاندانی حالات

پروین شاکر کی والدہ کا نام افضل النساء تھا ۔ان کے والد ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے.پروین شاکر کاخاندان ہندوستان کے صوبہ بہار کے ایک گاؤں چندی پٹی سے تعلق رکھتا تھا ۔ پروین شاکر اور ان کی بڑی بہن نسرین بانو نے بچپن ایک ساتھ گزارا۔ پروین شاکر ایک ذہین اور خوبصورت خاتون تھیں جنھیں معاشرے کے رویے اور گھٹن کا شکار ہونے کے بعد شادی ختم ہونے سے بھی شدید رنج ہوا۔ ایک حساس طبع اور شاعرہ نے خود کو سمیٹنے کی کوشش کے ساتھ خود کو منوانے کے لیے بہت جد و جہد کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں عورتوں کے جذبات کو بیان کیا گیا ہے۔

شاعری اور ادبی سفر

پروین شاکر کا پہلا مجموعہ خوشبو شائع ہوا تو اس وقت شاعرہ کی عمر صرف 24 برس تھی۔ اس مجموعہ کو ملک گیر پذیرائی ملی اور پروین شاکر کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ پروین شاکر کی شاعری کی تعریف اس دور کے مشہور شعراء نے کی اور انھیں بہت سراہا۔ پروین شاکر کو پانچ بڑے ادبی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ان کے شعری مجموعے 1980ء میں صد برگ، 1990ء میں خود کلامی، 1990ء میں ہی انکار اور 1994ء میں ماہ تمام( کلیات) کے عنوان سے شائع ہوئے۔

نمونۂ کلام

نظم: ضد
میں کیوں اس کو فون کروں!
اس کے بھی تو علم میں ہوگا
کل شب
موسم کی پہلی بارش تھی!

چند مشہور اشعار
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں