جمعہ, جنوری 31, 2025
اشتہار

ہوائی فائرنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات : قانون میں اس کی سزا کیا ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی : نئے سال کا موقع ہو، شادی اور جشن آزادی ہو یا عید کا چاند نظر آئے، بد قسمتی سے اس کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کرنا ایک ٹرینڈ بن چکا ہے۔

اس کی وجہ سے ملک بھر میں سالانہ سینکڑوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن ایسے قتل کا ملزم ہاتھ آنا کافی حد تک ناممکن ہوتا ہے، اس پر ستم یہ کہ قانون ہونے کے باوجود ہوائی فائرنگ کے سدباب کیلیے مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے۔

اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ممتاز قانون دان ایڈووکیٹ عثمان فاروق نے ہوائی فائرنگ کی قانونی حیثیت اور اس کی سزا سے متعلق چند بنیادی باتیں بیان کیں۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہتھیاروں کی نمائش اور اس کا غیر ضروری استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو اسلحے کا لائنسنس اس لیے جاری نہیں کیا جاتا کہ وہ ہوائی فائرنگ کرتے پھریں، ان کو گولیاں اور کارتوس بھی گن کر فراہم کیے جاتے ہیں کیونکہ لائسنس یافتہ اسلحے سے بھی ہوائی فائرنگ کرنا ملکی قانون میں قابل سزا جرم ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔

ایک سوال کے جواب میں ایڈووکیٹ عثمان فاروق نے بتایا کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 337-ایچ سب سیکشن 2 کے تحت یہ ایک قابل سزا جرم ہے اور مجرم پر جرمانہ عائد ہوگا یا قید کی سزا ہوگی یا پھر دونوں نافذ العمل ہوں گی۔

مزید پڑھیں : شادی میں ہوائی فائرنگ نے ایک اور جان لے لی

واضح رہے کہ کراچی کے علاقے سپرہائی وے پر شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ سے 12سالہ بچی جاں بحق ہوگئی، بچی کی شناخت 12 سالہ عزیلہ سبزعلی کے نام سے ہوئی۔

شادی کی تقریب میں بچی عمارت کی چوتھی منزل پر موجود تھی جہاں اس کے سینے میں گولی لگی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔

پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کرکے اسلحہ برآمد کر لیا ہے۔ ملزمان مقتولہ کے رشتے دار جان زاد اور جمال شاہ بتائے جاتے ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں