منگل, فروری 4, 2025
اشتہار

"میں کیوں لکھتا ہوں…”

اشتہار

حیرت انگیز

شاعر ہو یا ادیب، وہ کسی فکر اور نظریے کا حامل ہو اور کسی خاص سماجی، سیاسی تحریک یا افتادِ طبع اور داخلی جذبات و احساسات کے زیرِ اثر قلم و قرطاس سے ناتا جوڑتا ہے۔

رؤف خلش حیدرآباد دکن کے جدید شعراء میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری کے تبدیل ہوتے ہوئے منظر نامے، بدلتے اسلوب کو ایک نیا پن دیا۔ انہوں نے اپنی ایک تحریر میں اس سوال کا جواب دیا ہے کہ وہ کیوں لکھتے رہے اور اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے۔ ان کا یہ جواب ادب کے قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔ رؤف خلش رقم طراز ہیں:

"میں کیوں لکھتا ہوں” اس کے تین جواب ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ میں صرف اپنے لیے لکھتا ہوں ۔ دوسرے یہ کہ اوروں کے لیے لکھتا ہوں۔ تیسرے یہ کہ میرے اندر کی تحریک مجھ سے لکھواتی ہے، جسے اندرونی احساس” یا Inner feeling کانام دیا جاسکتا ہے۔

اگر میں اپنا تخلیقی تجربہ بیان کروں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ تین چیزیں میرے تخلیقی عمل کا حصہ بنی ہیں۔ وہ ہیں مشاہدہ تجربہ اور احساس۔ دراصل تخلیقی عمل ایک شعور و لا شعور کے جھٹ پٹے کا عمل ہے۔ کم از کم میرے تجربے کے مطابق ایک قوت کار فرما رہتی ہے جسے حالی کی زبان میں "قوت متخیلہ ” کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سب باتیں اس عنوان کے تحت آتی ہیں کہ میں کیوں کر لکھتا ہوں یا کیسے لکھتا ہوں۔ تخلیقی سطح پر میرا دائرہ شعر گوئی پر محیط ہے جس کی دو شاخیں ہیں۔ ایک فرمائشی دوسری تخلیقی۔ فرمائشی سے مراد وہ شاعری ہے جو کسی دیے گئے موضوع، عنوان یا کسی طرحی مصرع پر کی جائے۔ اسے پیداوار یا Productive کہا جاسکتا ہے۔ اگر میں اسے اپنے مزاج یا افتادِ طبع کا حصّہ نہ بناؤں تو یہ خدشہ رہتا ہے کہ شاعری کہیں قافیہ پیمائی یا تک بندی بن کر نہ رہ جائے۔ البتہ اپنے مزاج، اسلوب یا تحریک پر آزادنہ شعر کہا جائے تو اسے تخلیق یا Creative کہیں گے۔ ہر دو کے لیے یہ "جذبۂ تحریک ” یا Motivation کا ہونا بہت ضروری ہے۔

میری ترجیحات ہمیشہ فرمائشی کے بجائے تخلیقی کی طرف زیادہ رہی ہیں۔ اس کی وجہ میرا "شعری مزاج” ہے۔ سوال یہ ہے کہ میرا شعری مزاج کیا ہے؟ اگر میں اسے ایک جملے میں بیان کروں تو کہوں گا کہ میرا شعری مزاج تفصیل کے مقابل جامعیت، بیانیہ کے مقابل ایمائیت اور روایت کے مقابل جدیدیت کا حامل ہے۔ اور میرا یہ شعری مزاج بہت کچھ اپنے انفرادی ذوق یا پسند نا پسند کی بناء پر رہا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ میرا شعری رویہ ایک طرح سے "خود احتسابی” کا رویہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نظرِ ثانی کو بہت اہم مانتا ہوں۔ موزوں طبع ہونے کے باوجود جب تک میری طبیعت شعر کہنے کی طرف خود بخود مائل نہیں ہوتی میں شعر موزوں نہیں کرتا۔ شعر گوئی میرے لیے ایک انبساط یا کیف و سرور کا عمل ہے۔ "کاتا اور لے دوڑی” کا میں بالکل قائل نہیں۔

میں کرتا یہ ہوں کہ پہلے استعارہ: بصری لمسی یا سماعی پیکر میں ڈھلتا جائے بعد میں قرطاس و قلم کی مدد سے شعر بنے۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ کسی بھی نظریۂ حیات کو ادب میں ڈھالتے ہوئے شاعر کو dogmatic یا ادعا پسند نہیں ہونا چاہیے۔ 60ء کی دہائی میں "وابستگی ” یا "ناوابستگی ” کی اسی بحث نے اختلافات کی خلیج پیدا کر دی۔ غالباً ترقی پسند ادب کی سیاسی نظریے سے وابستگی نے یہ جنجال کھڑا کردیا تھا۔ جس کے نتیجے میں بیشتر شاعری نعرہ بازی یا پروپگنڈا بن کر رہ گئی۔ یہ قول بڑی حد تک درست ہے کہ ادب بہترین پروپگنڈا ہے لیکن بہترین پروپگنڈا ادب نہیں ہوتا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں