ہفتہ, فروری 8, 2025
اشتہار

ہلاکو خان: بغداد کا وہ تاراج گر جس کے مدفن کا کوئی نشاں ملتا

اشتہار

حیرت انگیز

بغداد جس کا شان دار ماضی اور سنہرا دور آج بھی عالمِ اسلام کا فخر ہے، وہیں ہلاکو خان بھی تاریخ کا وہ کردار ہے جسے مسلمان اس شہر تاراج گر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ ایک ظالم اور سفاک حکم راں‌ کے طور پر مشہور ہے جو چنگیز خان کا پوتا اور تولوئی خان کا بیٹا تھا۔

بغداد کو دنیا علم و فنون کا وہ مرکز سمجھتی ہے جس کی مٹی یگانۂ روزگار شخصیات کی وجہ سے گویا چمکتی تھی۔ وہاں‌ عرب اور غیر عرب مسلمان علماء، دانش ور اور علم و فنون کے ماہر دربار سے وظیفہ پاتے اور تشنگانِ علم ان سے سیراب ہوتے تھے اور ایک دن ہلاکو خان نے بغداد کی گلیوں‌ کو خون سے رنگ دیا تھا۔

ہلاکو خان موت کی ایک وجہ ناسازیٔ طبع اور دوسرا سبب اس کے گھوڑے کا بدک جانا بتایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ اس ناگہانی افتاد کے باعث ہلاکو خان اپنا توازن کھو بیٹھا تھا اور اس کا سَر زمین پر زور سے لگا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ وہ اپنے وقت کی مشہور ایل خانی سلطنت کا بانی تھا۔

مؤرخین کے مطابق ہلاکو خان کو اس کے بھائی نے 1256ء میں ایران کی طرف بھیجا تھا جہاں ایک باغی گروہ سر اٹھا رہا تھا۔ اس بغاوت کو کچلنے کے بعد ہلاکو وہاں مسلسل لڑائی میں مصروف رہا، اور کئی علاقوں کو فتح کرنے کے بعد بڑے زعم اور اعتماد سے بغداد کی طرف متوجہ ہوا۔ وہاں المستعصم کی حکومت تھی۔ یہ شہر علم و فنون اور معاشرت میں ممتاز تھا، لیکن مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں‌ کہ خلیفہ المستعصم کے دور میں‌ بغداد میں‌ فرقہ واریت اور عوام میں انتشار بڑھ چکا تھا۔ حکم راں اپنی فوج سے بے نیاز اور سرحدوں کے دفاع سے غافل ہوچکا تھا۔ یہ عالمِ‌ عرب میں اس مسلم سلطنت کے زوال کا دور تھا۔ ہلاکو خان نے اسی کا فائدہ اٹھایا اور اپنی فوجی طاقت کے زور پر بغداد کو اجاڑ کر رکھ دیا۔

اردو کے مشہور ادیب اور طنز و مزاح نگار عظیم بیگ چغتائی نے اس پر زوالِ‌ بغداد کے عنوان سے ایک مضمون میں‌ لکھا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں: "بغداد کا لاتعداد فوج سے محاصرہ کر لیا گیا۔ چاروں طرف بلندیوں پر سے پتّھر اور مشتعل رال کے گولے شہر والوں پر برسنے لگے اور چالیس روز کے سخت محاصرے کے بعد یہ طے ہوا کہ ہلاکو خاں سے صلح کی جائے۔

ہلاکو خاں نے دھوکہ دے کر خلیفہ کے خاص افسران کو اپنے کیمپ میں بلایا اور ذرا سے بہانے پر سب کو قتل کر ڈالا۔ آخر کو یہ طے ہوا کہ شہر کو بچانے کے لیے صلح کی جائے۔ چناں چہ خود خلیفہ مع اپنے بھائی اور دونوں بیٹوں اور قریب تین ہزار آدمیوں کے ہلاکو خاں کے خیمے میں گئے۔

یہ تین ہزار آدمی شہر کے بڑے بڑے قاضی، شیخ، امام اور دوسرے بڑے لوگ تھے۔ ہلاکو خاں نے سب کا بڑی خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ خلیفہ اور تینوں شہزادوں کو شرفِ باریابی بھی بخشا۔

جب خلیفہ کو ہر طرح کا اطمینان دلا دیا تو ہلاکو خاں نے خلیفہ سے کہا کہ مجھ کو بغداد شہر خاص کی ذرا مردم شماری کرنا ہے لہٰذا حکم بھیج دیجیے کہ تمام مسلح آدمی اور باشندے شہر سے باہر آجائیں۔ چناں چہ جب سب آگئے تو گرفتار کر لیے گئے اور دوسرے روز ہلاکو خاں نے سب کو قتل کر کے خاص بغداد شہر کی تباہی کا حکم دے دیا۔

شاہی محل کے ایک ہال میں ایک سونے کا درخت تھا۔ جس کی ڈالیوں پر سنہری پرندے بنے ہوئے تھے اور اس میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ دوسرے ہال میں جس کا نام ایوانِ فردوسی تھا، نہایت عالی شان جھاڑو فانوس لٹک رہے تھے۔ دیواروں اور چھتوں پر لعل و گوہر کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور ان کا نہایت خوش نما رنگ اس کی زیبائش میں اور بھی چار چاند لگا رہا تھا۔ غرض یہ کہ ایوانِ فردوسی کیا تھا ایک قابلِ دید نظارہ۔

دریا کے ہر دو کناروں پر میلوں تک آمنے سامنے محل بنے ہوئے تھے اور علاوہ محلات کے باغات بھی تھے۔ دریا کے کنارے کنارے پانی کی سطح تک سنگِ مرمر کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ دریا میں ہزار کشتیاں پڑی ہوئی تھیں جو ذواک کہلاتی تھیں۔ جن پر خوب صورت جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں جو شعاعوں کی طرح سطحِ آب پر لہرا لہرا کر ایک عجیب نظارہ پیدا کر رہی تھیں، جنہوں نے گویا اس سین میں جان ڈال دی تھی۔ اعلیٰ طبقے کے بغدادی انہیں کشتیوں میں بیٹھ کر شہر کے ایک حصہ سے دوسرے میں بغرض سیر و تفریح جاتے تھے۔

بہت سے گھاٹ دریا کے کنارے میلوں تک پھیلے ہوئے تھے اور ان پر تمام بیڑا لنگر ڈالے رہتا تھا، جس میں بڑی چھوٹی اور جنگی کشتیاں و جہاز ہر قسم کے تھے۔ اس میں اونچے اونچے بلند جنگی جہاز اور ان کے آس پاس پولیس کی کشتیاں تھیں۔

جامع مسجد نہایت ہی خوب صورت اور عالی شان عمارت تھی۔ ایوان جو کہ قصرُ الخلد کہلاتا تھا، اس کے بیچ میں ایک بڑا زبردست ہرے رنگ کا گنبد بنا ہوا تھا۔ جو قریب اسّی ہاتھ (112 فٹ) اونچا تھا۔ گنبد کی چوٹی پر ایک گھوڑے سوار کا پتلا بنا ہوا تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک بھالا تھا۔ غرض بغداد کیا تھا کہ شہروں میں دلہن۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس قدر زبردست سلطنت کا دارالخلافہ برسوں رہا، جہاں دنیا کی دولت سمٹ کر آگئی تھی۔ غرض یہ تھا وہ جس کی تباہی کا حکم دیا گیا۔

بغداد کی تباہی کے حالات کا حال قلم بند کرنے کے لیے کسی استاد کے قلم کی ضرورت ہے۔ صنعتی اور علمی خزانے جو کہ بڑی محنت اور جاں فشانی اور بڑی مدت سے بادشاہوں نے اکٹھے کیے تھے، تلف کر دیے گئے اور عرب و عجم کی جو کچھ بھی بچی کھچی تہذیب تھی وہ سب چند گھنٹوں میں تہس نہس کردی گئی۔

تین روز تک کشت و خون جاری رہا اور تمام گلی کوچوں میں خون کے نالے بہتے رہے اور دریائے دجلہ کا پانی میلوں تک سرخ ہو گیا۔ محلاّت، مساجد اور روضہ جات، سنہری گنبدوں کی وجہ سے جلا کر خاک کر دیے گئے۔ شفا خانوں میں مریض، کالجوں میں طالبِ علم اور استاد تہِ تیغ کر دیے گئے۔ مقبروں میں شیخوں اور اماموں کی لاشیں جلا کر خاک کردی گئیں۔ کتابیں یا تو آگ میں پھینک دی گئیں اور یا دجلہ میں ڈبو دی گئیں۔ اس طرح سے ہزاروں برس کے اکٹھے کیے ہوئے علمی خزانے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیے گئے اور یہ قوم کی قوم ہمیشہ کے لیے برباد کر دی گئی۔

چار روز تک مسلسل قتل عام جاری رہا۔ اس کے بعد خلیفہ مستعصم کو بھی مع اس کے لڑکوں اور خاندان والوں کے قتل کردیا گیا۔ کچھ افراد خاندانِ عباسیہ کے البتہ اس غارت گری سے بچ گئے۔ بغداد جو علم اور تہذیب کا مرکز تھا، تہ و بالا کر دیا گیا۔”

محققین نے ہلاکو خان کا سنہ پیدائش 1215ء اور جائے پیدائش منگولیا لکھا ہے لیکن تاریخِ وفات میں اختلاف سامنے آتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ ہلاکو خان کی موت 8 فروری 1265ء کو ہوئی تھی، مگر بعض کتب میں اس کی ہلاکت کی تاریخ 12 فروری درج ہے۔ دوسری طرف یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہلاکو خان کا مدفن تاحال دریافت نہیں‌ ہو سکا ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں