کراچی : اے آر وائی نیوز کے نمائندے نے مصطفیٰ عامر قتل کیس سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات کیے۔
تفصیلات کے مطابق مصطفیٰ عامر کے لرزہ خیز قتل نے پورے کراچی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 31 دسمبر کی رات ایک جھگڑے کے بعد، 6 جنوری کو ایک نوجوان کو بلا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر کراچی سے حب لے جا کر زندہ جلا دیا گیا۔
مقتول کی والدہ نے اغوا کا مقدمہ درج کرایا اور اپنے بیٹے کو تلاش کرتی رہیں، تاہم جب تحقیقات آگے بڑھیں تو شواہد سامنے آئے اور ملزمان شیراز اور ارمغان کے نام منظرعام پر آئے۔
تحقیقات الجھتی چلی گئیں، قتل یا کچھ اور؟
اس کیس میں ایک کے بعد ایک انکشافات سامنے آتے گئے، جس سے معاملہ پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ منشیات کا کیس ہے، کسی لڑکی کا معاملہ ہے یا صرف قتل کی سازش؟
تحقیقات کے دوران ڈارک ویب، منشیات فروشی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے نیٹ ورک کے تذکرے بھی سامنے آئے، پہلے سمجھا جا رہا تھا کہ یہ ایک انفرادی قتل کا واقعہ ہے، مگر جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھیں، مزید کردار اور سازشیں بے نقاب ہوتی چلی گئیں۔
تحقیقات میں پولیس اور حساس اداروں کا کردار
ابتدائی طور پر پولیس نے اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا، مگر جب شیراز کا نام آیا اور قبر کی تلاش شروع ہوئی، تو وفاقی حساس ادارے بھی میدان میں آگئے اور اسپیشلائزڈ یونٹس کی مدد سے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔
تحقیقات کے دوران پہلے ایک لڑکی کا نام سامنے آیا، پھر دوسری، پھر ایک تیسری لڑکی کا بھی انکشاف ہوا، جو اس کیس میں نہ صرف اہم کردار رکھتی تھی بلکہ متاثرہ بھی تھی۔
ارمغان کال سینٹر سے منشیات نیٹ ورک تک
پہلے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ارمغان صرف ایک غیر قانونی کال سینٹر چلاتا تھا، جہاں سے 62 لیپ ٹاپ اور دیگر آلات برآمد ہوئے۔ لیکن مزید چھان بین کے بعد انکشاف ہوا کہ وہ ایک منشیات نیٹ ورک بھی چلا رہا تھا۔
تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ارمغان نے ایک نجی مسلح گروہ بنا رکھا تھا جو نہ پولیس کو مانتا تھا، نہ کسی اور ادارے کو۔
ارمغان کی پولیس سے بدمعاشی
کچھ عرصہ قبل گزری تھانے کے ایس ایچ او جب ایک مقدمے کے سلسلے میں ارمغان کے گھر پہنچے تو اس نے دھمکی دی اور پولیس کو باہر نکال دیا۔ ملزم نے کہا: "یہ جگہ حکومتِ پاکستان کی حدود میں نہیں آتی، یہ میری جگہ ہے، یہاں داخل ہونے کی کسی کو اجازت نہیں!”
یہاں تک کہ مزید پولیس فورس بلانے کے باوجود بھی کسی کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ ملی۔
ارمغان کے خلاف مقدمات اور اسلحہ برآمدگی
ارمغان کے خلاف 9 مقدمات درج تھے، جن میں منشیات، جھگڑے اور دیگر جرائم شامل تھے۔ تفتیش کے دوران اس کے قبضے سے کروڑوں روپے مالیت کا غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا، جس میں رائفلیں اور ہزاروں گولیاں شامل تھیں، جن کے نہ تو لائسنس موجود تھے اور نہ ہی گاڑیوں کے کاغذات۔
ساحر اور منشیات کا خوفناک نیٹ ورک
ساحر کے حوالے سے نمائندے نے بتایا ساحر نے جو انکشافات کئے، اس میں پولیس ، بڑے سیاستدانوں ، بڑی بزنس مینوں ، اسکول کالجز اور ایسے طبقہ فکر کے لوگوں کے نام بتائے جن کے جوان بچے بچیاں اس سے منشیات لیتے تھے جبکہ 2 سال میں 50 کروڑ کی منشیات پاکستان کی ٹاپ کورئیر کمپنیز کے زریعے مانگا چکا ہے، جو پہلے کیلی فورنیا سے اسلام آباد اور پھر روڈ کے زریعے کراچی پہنچتی ہیں۔
نمائندہ اے آر وائی نیوز نے بتایا کہ منشیات فروخت کرنے سے جو کیش پیسے آتے تھے وہ ساحر خود وصول کرتا تھا اور بڑی رقم معروف اداکار ساجد حسن کے مینجر کے اکاونٹ میں آتے تھے، جس کے ایس ایس پی ایس آئی یو نے یہ بھی کہا ہے کہ اب اس بات کی بھی تحقیقات ہوگی کہ اس میں ساجد حسن کا بھی کوئی کردار ہے تو تفتیش کریں گے۔