صوبۂ پنجاب اپنے مختلف ادوار، قدیم و جدید تہذیبی رنگ اور طرزِ تعمیرکی وجہ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں لاہور کے علاوہ کئی دوسرے قدیم شہر اور قصبات بھی اپنی آبادیوں اور مختلف بستیوں کی وجہ سے مشہور تھے جن کا آج کوئی وجود نہیں ہے۔ پرانی بستیوں کے ملبے پر نئے شہر اور قصبات آباد ہو گئے ہیں۔
محقق و مصنف اسد سلیم شیخ کی کتاب نگر نگر پنجاب انہی شہروں اور قصبات کی تاریخ و تہذیب بتاتی ہے۔ اس کتاب سے ہم ملکہ ہانس کے متعلق یہ معلومات نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔
ضلع پاکپتن کا تاریخی قصبہ اور پنجابی شاعر وارث شاہ کا مسکن ملکہ ہانس کو کہا جاتا ہے۔
یہ قصبہ پاکپتن سے دس میل میں شمال کی طرف ساہیوال روڈپر واقع ہے۔ اس قصبے کی بنیاد ۱۲۹۵ء میں ہانس قبیلے کے ایک فرد ملک محمد نے رکھی، اُسی کے نام کی وجہ سے اس کا نام ملکہ ہانس پڑا۔ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں ایک زمیندار، مگر جید عالم شیخ قطب الدین ہانس کو ۱۶۶۳ء میں ایک ہندو تعلقہ قطب آباد کے متعدد گاؤں جاگیر میں ملے۔ شیخ قطب الدین ہانس دہلی کے ایک معزز گھرانے میں اتالیق کے فرائض انجام دیتے تھے۔ اس ذریعے سے انہوں نے اورنگ زیب عالمگیر کے دربار سے رابطہ قائم کرلیا۔ قطب ہانس کا جانشین عظیم ہانس تھا۔ ۱۷۶۷ء میں سکھوں کی بھنگی اور نکامثل نے ہیرا سنگھ کی سرکردگی میں اتحاد کر کے پاک پتن، ملکہ ہانس اور اس کے اردگرد لوٹ مار کا بازار گرم کیا، تو اس دوران عظیم ہانس نے سکھوں سے اتحاد کر کے سجادہ نشین پاک پتن دیوان عبدالسبحان پر حملہ کر دیا۔ دیوان نے وٹو قبیلہ کی مدد حاصل کر کے سکھوں کو شکست دی۔ بعدازاں سکھوں نے مکاری سے محمد عظیم ہانس کو قید کرلیا اور اسی قید میں وہ مرگیا۔
عظیم ہانس کے بعد اس کا بھائی محمد حیات قبیلہ ہانس کا سردار بنا۔ محمد حیات نے بھنگی مثل کے بھڑوال سنگھ سے اتحاد کرتے ہوئے پاک پتن کے سجادہ نشین پر حملہ کر کے زبردستی جاگیر چھین لینے کا منصوبہ بنایا۔ بھڑوال سنگھ مدد کے لئے تیار نہ ہوا تو اس نے علاقے کے ڈوگروں کو ساتھ ملا لیا۔ ڈوگروں اور ہانسوں نے مل کر پہلے نکامثل کے سکھوں کو اس علاقے سے باہر کیا، مگر اسی دوران نکامثل کی مائی جنداں کی منگنی بھنگی مثل کے سردار رنجیت سنگھ سے ہوگئی۔ اب سکھوں نے مل کر اس علاقے کو تاراج کیا۔ محمد حیات ہانس سکھوں کی طاقت کے آگے نہ ٹھہر سکا بھاگ کر پاکپتن کے سجادہ نشین کے ہاں پناہ گزین ہوا۔ اب یہ علاقہ بھنگی مثل کے سکھ سرداروں کے قبضہ میں آگیا۔ انگریزوں کے پنجاب پر قبضہ کے بعد یہ ضلع گوگیرہ کا حصہ بنا۔ بعدازاں ساہیوال کے ضلع بننے پر اس میں شامل ہوا۔ آج کل ضلع پاکپتن میں شامل ہے۔ ملکہ ہانس کی اہمیت پنجابی کے معروف شاعر وارث شاہ کی وجہ سے بھی ہے۔ وہ جب پاکپتن میں تشریف لائے تو کچھ عرصہ بعد ہی قصبہ ملکہ ہانس کے محلہ ٹبہ کی مسجد کو اپنا مسکن بنایا۔ ہیر رانجھا کی لوک داستان یہیں منظوم صورت میں تخلیق کرتے رہے، جو ’’ہیر وارث شاہ‘‘ کے نام سے پنجابی زبان کا عظیم شاہکار اور انسائیکلوپیڈیا ہے۔ قصبہ ملکہ ہانس میں آج بھی وہ قدیمی مسجد آپ کے مسکن کی بناء پر مسجد وارث شاہ کے نام سے موجود ہے۔ روحانیت سے معمور آپ کا حجرہ آج تک سیاحوں کے لیے پُرکشش ہے۔ یہاں آنے سے پہلے و ارث شاہ قریبی بستی ٹھٹھہ جاہد میں ٹھہرے تھے۔ یہاں وہ کچھ عرصہ مقیم رہے اور اس دوران وارث شاہ بھاگ بھری کے عشق میں گرفتار ہوئے۔ لوگوں کو جلد ہی اس کی خبر ہوگئی اور انہیں مجبوراً ملکہ ہانس منتقل ہونا پڑا، جہاں انہوں نے اپنے پیار کو اس قِصّے کے رنگ میں امر کر دیا۔
مسجد وارث شاہ کے علاوہ ملکہ ہانس میں چند اور تاریخی اہمیت کی حامل عمارات بھی ہیں، جن میں حضرت مالن شاہ، سیّد مہر علی شاہ اور پیر حاجی دیوان صاحب کے مزارات کے علاوہ مسجد بابا بُلھے شاہ قابلِ دید ہیں۔ اندرون شہر سمادھی سکھاں اور پرنامی مندر اس علاقے کی ہندو مذہبی تاریخ میں بہت مشہور رہا۔ یہ مندر پرنامی فرقہ کے ہندوئوں کی مرکزی عبادت گاہ تھی، جسے مہنت دربار سنگھ نے آج سے دو سو سال قبل تعمیر کرایا۔ یہ مندر ایک محل نما عظیم الشان پانچ منزلہ عمارت پر مشتمل تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل یہاں چیت کے مہینے میں ایک بڑا ہندو میلہ لگتا تھا۔ سنگِ مرمر اور لال پتھر سے بنی ہوئی یہ عمارت ہندو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ یہ مندر پاکستان کے پرنامی فرقہ کا مقدس ترین مقام تھا۔ اس فرقہ کے بانی دیا رام کی سمادھی بھی یہاں موجود ہے۔ اس فرقہ کے مذہبی پیشوا مہاراج گو بند داس نے ملکہ ہانس میں پرنامی ہائی اسکول بھی قائم کر رکھا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہندوؤں کے متروکہ خوبصورت مکانات رحمانی برادری کے مہاجرین کو الاٹ ہوئے جنہوں نے ان عمارات اور قصبہ کے مجموعی حُسن کو رفتہ رفتہ ضائع کر دیا اور یوں اس قصبہ کا قدرتی حسن پارینہ بن چکا ہے۔