عزیز حامد مدنی اردو شاعری کی توانا آواز تھے جو اپنے منفرد اور جدید لب و لہجے کے سبب اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔ وہ ایک براڈ کاسٹر اور نقّاد بھی تھے۔ 1991ء میں آج ہی کے دن عزیز حامد مدنی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔
رائے پور( یو پی) کے ایک ذی علم گھرانے میں عزیز حامد مدنی نے 15 جون 1922ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد مولانا شبلی نعمانی کے شاگرد اور مولانا محمد علی جوہر کے دوستوں میں سے تھے۔ مشہور ادیب، نقاد، محقق، مترجم ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری بھی اُن کے عزیزوں میں سے تھے۔ عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ انھوں نے ریڈیو پر کئی پروگرام کیے اور خود کو بہترین براڈ کاسٹر ثابت کیا۔عزیز حامد مدنی نے اردو ادب میں شاعری کے ساتھ تنقید کے میدان میں خوب کام کیا۔
عزیز حامد مدنی کے شعری مجموعے چشمِ نگراں، دشتِ امکاں اور نخلِ گماں کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔
عزیز حامد مدنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی سانولی سلونی شخصیت بڑی دل آویز تھی۔ آواز میں نسوانیت تھی، ثقلِ سماعت کے سبب یا محض عادتاً پہلی بار مخاطب ہونے پر گویا کچھ سن، سمجھ نہ پاتے تھے اور ان کے سامنے بات دہرانا پڑتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منفرد اور باکمال شاعر عزیز حامد مدنی شعر بہت برے انداز سے سناتے تھے۔ ان کی آواز اور انداز شعر کو بے مزہ کردیتا تھا۔ اس کے باوجود باذوق سامعین اور اہلِ ادب ان کو بہت احترام سے سنا کرتے تھے۔
مدنی صاحب کو کراچی میں لیاقت آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے