ویڈیو رپورٹ: امیر عمر چمن
چنیوٹ، جو لکڑی کے کمال فن اور دریا کنارے کی خوب صورتی کے لیے مشہور ہے، وہاں کی تنگ گلیوں میں چھپا ہے ایک ایسا شیش محل جو نہ صرف تاریخ سنبھالے ہوئے ہے بلکہ حسن کی نئی تشریح بھی کرتا ہے۔
چنیوٹ کی تنگ اور خاموش گلیوں میں اچانک آپ کی نظر ایک ایسی چمکتی عمارت پر پڑتی ہے، جو سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ دربار سائیں سُکھ المعروف شیش محل — ایک ایسی جگہ ہے جہاں عقیدت، تاریخ اور شیشے کی روشنیوں کا جادو بکھرا ہوا ہے۔ آئیے، وقت کی تہوں میں چھپے اس راز سے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔
سائیں سُکھ کون تھے؟
سائیں سُکھ، جن کا اصل نام احمد تھا، محبت سے احمد ماہی کے نام سے جانے گئے۔ 1914 میں 13 رجب کو پیدا ہونے والے سائیں سُکھ نے اپنی زندگی میں ہی اس جگہ کو روشن خوابوں جیسا بنا ڈالا۔ 1950 میں محض 500 روپے میں حاصل کی گئی دس مرلہ زمین پر، انھوں نے فن اور عقیدت کا ایسا شاہکار تعمیر کروایا، جو آج بھی اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔
پاپا کی ڈاکو کی گولی سے معذوری کے بعد میرا اسکول بھی چھوٹ گیا ہے، دردناک ویڈیو رپورٹ
یہاں کا ہر گوشہ، ہر زاویہ — جیسے شیشے کی کرنوں سے کوئی کہانی سناتا ہو۔ سیمنٹ سے تھوبہ کاری میں لکڑی کے طرز کی منبت کاری اور بیل بوٹے ایسے تراشے گئے کہ ہاتھ کا کمال بھی حیران رہ جائے۔ سائیں صاحب کو شیشہ گری کا جنون تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں ہی چنیوٹ کے بہترین شیشہ سازوں کی خدمات حاصل کیں، اور اپنی قبر کے اندرونی حصے کو مکمل طور پر شیشے سے آراستہ کروایا۔ یہ فن کا وہ کمال ہے جو آج بھی دنیا دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے۔
مزار یا ایک خواب
یہاں آ کر ایسا لگتا ہے جیسے روشنیوں نے کوئی جادو کر دیا ہو۔ ہر دیوار، ہر چھت پر بکھرے شیشے آپ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، اور انسان کو اپنے آپ میں کھو جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ماہر آرٹیکیٹ اظہر علی سہارن کہتے ہیں یہ کام صرف عمارت بنانے کا نہیں تھا، یہ ایک خواب کو شکل دینے کا عمل تھا۔ شیشے کے کٹاؤ، سیمنٹ کی باریک تراشی، اور قدرتی روشنی کے ساتھ کھیلنا — یہ سب دربار سائیں سکھ کو ایک بے مثال مقام بناتے ہیں۔ 1987 میں سائیں سُکھ کے وصال کے بعد انھیں اسی مزار میں دفن کیا گیا، اور ان کی اہلیہ مائی صاحبہ 1984 سے ہی یہیں مدفون ہیں۔ ہر چاند کی 15 تاریخ کو یہاں محفلِ سماع ہوتی ہے۔