جمعرات, مئی 8, 2025
اشتہار

احمد سنجر: آخری سلجوق سلطان جس کی آواز پر مسلمان حکم راں اکٹھے ہوئے

اشتہار

حیرت انگیز

عالمِ اسلام میں سلطان احمد سنجر کو خاص اہمیت حاصل ہے اور تاریخ ان کو ’’سلطانِ اعظم‘‘ کے لقب سے یاد کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زوالِ دولتِ عباسیہ کے بعد سلطان احمد سنجر نے ہی آخری مرتبہ اسلامی ریاستوں‌ کو یک جا و بہم کیا تھا۔

سلطان سنجر کی شان و شوکت اور عظمت و سطوت بھی ضربُ المثل تھی۔ ان کی سلطنت مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی اور عباسی اقتدار کے خاتمے کے بعد اسی کے زیرِ سایہ مسلمانانِ عالم اکٹھے ہوئے تھے۔ تاریخ دانوں کے نزدیک یہ اس سلجوق حکم راں کا وہ کارنامہ ہے جس نے عالمِ اسلام میں‌ ان کی عزّت و توقیر میں‌ اضافہ کیا۔

سلجوقی سلطنت یا سلاجقۂ عظام دراصل 11 ویں تا 14 ویں صدی عیسوی کے درمیان ایک مسلم بادشاہت تھی اور یہ نسلاً اوغوز ترک تھے۔ سلطان سنجر اسی سلجوق خاندان میں سے چھٹے حکم راں تھے جن کا نام تاریخ میں امتیازی حیثیت میں درج ہوا۔ بعد کے برسوں میں چشمِ فلک نے سلجوقیوں کا بھی زوال دیکھا اور اسی کے ساتھ مسلم ریاستیں بھی سیاسی ابتری اور انتشار کا شکار ہوگئیں۔ یہ وہ دور تھا جس میں یورپ کی عیسائی طاقتوں نے سر اٹھایا اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار کا فائدہ اٹھانے کے لیے ان کے خلاف متحد ہوگئیں۔ یہاں تک کہ صلیبی جنگ شروع ہوئی اور بیتُ المقدس پر ان کا قبضہ ہوگیا۔

سلطان سنجر کی شان و شوکت کا تذکرہ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے بھی اپنی ایک نظم میں‌ کیا ہے۔ اقبال نے انھیں اپنے اشعار میں یوں‌ سراہا ہے:

شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود!
فقرِ جنیدؔ و با یزیدؔ تیرا جمال بے نقاب!
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہِ سنجر و فقرِ جنیدؒ و بسطامیؒ

8 مئی 1157ء کو سلطان احمد سنجر دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ قدیم خراسان کے شہر مرو میں سلطان کا مقبرہ آج بھی موجود ہے، لیکن اب یہ علاقہ ترکمانستان کا حصّہ ہے۔ بعض تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ 1221ء میں تولوئی خان کی سرکردگی میں منگولوں نے جب اس شہر پر حملہ کیا تو سلطان احمد سنجر کے مقبرے کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ تاریخ کی کتب میں سلطان سنجر کی فوجی مہّمات کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ تقریباً‌ ہر معرکہ میں فاتح ٹھہرے، اور ان کی سلطنت خراسان، غزنی اور دریا کے پار عراق، آزربائجان، آرمینیا، شام، موصل اور گرد و نواح تک پھیل گئی تھی۔ تاریخ دان ابن خلقان نے سنجر کے بارے لکھا ہے کہ وہ انتہائی طاقت ور بادشاہ تھے اور سلجوقیوں میں سب سے زیادہ نرم مزاج اور سخی تھے۔ الذہبی کہتے ہیں کہ سلطان سنجر ایک باوقار، زندہ دل، سخی اور شفقت کرنے والا سلطان تھا۔

مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ منگول سپاہیوں نے سلطان کے مقبرے کو آگ لگا دی تھی، مگر اس کا بڑا حصّہ جلنے سے محفوظ رہا تھا۔ اس مزار کے طرزِ‌ تعمیر کی ایک انفرادیت اس کے 27 میٹر بلند گنبد کے اوپر تعمیر کردہ وہ بیرونی گنبد تھا جس کی وجہ سے اسے دہرے گنبد والی عمارت کہا جاسکتا ہے۔ اس کے گرد ایک مسجد، کاروان سرائے، بازار اور دیگر مقابر کے آثار بھی ملے ہیں اور اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ قدیم دور میں یہ مقام آباد تھا اور یہاں آنے والوں کی بڑی تعداد مزار پر بھی فاتحہ خوانی کے لیے آتی ہوگی۔

سلجوق خاندان کے اس چھٹے سلطان کا نام اور ان کے کنیت و القاب ابو الحارث، سنجر بن ملک شاہ اوّل، بن الپ ارسلان بن داؤد بن میکائیل بن سلجوق بن دقاق درج ہیں۔ وہ 1086ء میں اس دور کے عراق کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے تھے ان کی وفات کے بعد داؤد بن محمود سلجوقی تخت نشیں ہوا، لیکن محققین سمجھتے ہیں کہ احمد سنجر کے ساتھ ہی سلاجقہ کا زور بھی ٹوٹ گیا تھا اور ان کی حکومت جاتی رہی تھی۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں