اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ حالیہ دنوں میں مصر کے علاقے سیناء کا سفر کرنے کے خواہش مند اسرائیلیوں کے لیے سیکیورٹی خدشات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق ماضی میں بھی اسرائیلی سیاحوں کو سیناء کے سفر کے دوران خطرات لاحق تھے، لیکن حالیہ عرصے میں ان خطرات میں نمایاں اضافہ ہوگیا ہے، اسرائیلی اخبار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلیوں کو سیناء میں گھومنے پھرنے اور تفریح کی غرض سے سفر کے دوران شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
عسکری و تزویراتی امور کے ماہر بریگیڈیئر احمد ثروت کا کہنا تھا کہ اسرائیل دراصل اپنے طے شدہ منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی جبری ہجرت کو عملی جامہ پہنانے کے خواب دیکھ رہا ہے، اور مصر پر دباؤ بڑھانے کی پوری کوشش کررہا ہے، ان کوششوں میں سے ایک یہ ہے کہ اسرائیلی شہریوں کو سیناء جانے سے روکا جائے تاکہ مصر پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔
عسکری و تزویراتی امور کے ماہر کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل اپنے شہریوں کو سیناء جانے سے روکنے کا فیصلہ کرتا ہے تو در حقیقت خود خسارے میں رہے گا۔ کیوں کہ سیناء نہ صرف ایک متنوع سیاحتی علاقہ ہے بلکہ اسرائیل کے قریب بھی ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی شہریوں کی سیناء میں دل چسپی اسرائیلی وزیر اعظم کے ان منصوبوں سے متصادم ہے جن کے تحت وہ مصر پر ہجرت سے متعلق دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں، خاص طور پر جب کہ ان کی مقبولیت میں شدید کمی آ چکی ہے اور وہ اپنے قریبی اتحادیوں پر بھی بوجھ بن گئے ہیں۔
دوسری جانب فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے مغرب کو خبردار کیا ہے کہ اگر انھوں نے غزہ کو یونہی اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو مغرب اپنی ساکھ کھو دے گا۔
سنگاپور میں شنگری-لا ڈائیلاگ دفاعی فورم میں خطاب میں ایمانوئل میکرون نے کہا دنیا کی نظروں میں مغرب کو اس صورت میں اپنی تمام ساکھ کھونے کا خطرہ ہے، اگر وہ غزہ کو یونہی چھوڑ کر اسرائیل کو جو چاہے کرنے دے دے۔
فرانسیسی صدر نے کہا یہی وجہ ہے کہ ہم دوہرے معیار کو مسترد کرتے ہیں، یہی اصول یوکرین کی جنگ پر بھی لاگو ہوتا ہے، میکرون نے کہا ہمیں سپر پاورز کے تسلط کے سامنے دوہرے معیارات کو مسترد کر دینا چاہیے اور قانون کی حکمرانی پر مبنی نئے اتحاد کی تشکیل کرنی چاہیے۔
غزہ میں پوری فوجی طاقت کیساتھ داخل ہونے کا وقت آگیا، اسرائیلی وزیر
دریں اثنا، فرانسیسی صدر نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کو صرف اخلاقی فرض نہیں بلکہ سیاسی ضرورت بھی قرار دیا اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے کچھ شرائط بھی پیش کیں۔