پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں رہنماؤں نے کھل کر حکومت سے مذاکرات، احتجاج اور بانی پی ٹی آئی کی بہنوں سے متعلق رائے کا اظہار کیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج اسلام آباد میں چیئرمین بیرسٹر گوہر کی زیر صدارت ہوا۔ جس میں وزیراعلیٰ کے پی، پارٹی کے مرکزی عہدیداران سمیت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور سینیٹرز نے شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس کا آغاز پارٹی کے اسیر رہنماؤں کے خطوط کو پڑھ کر کیا گیا اور عامر ڈوگر نے اسیر رہنماؤں کے خط کو پارلیمانی پارٹی کے سامنے بھی رکھا۔
اس وقت بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت اور بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کی رائے میں اختلاف ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے عمران خان کی بہنوں کے حق میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علیمہ خانم سمیت ان کی تمام بہنیں اپنے بھائی کی رہائی کے جذباتی ہیں۔ بہنوں کے جذبات کو سمجھا جائے اور اس کا احترام بھی کیا جائے۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما علی محمد خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ علیمہ خان کی دل سے عزت کرتے ہیں، لیکن انہیں سیاسی عمل میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔
علی محمد خان نے یہ بھی کہا کہ ہم ایک دوسرے کو غدار غدار کہہ کر خود تباہی کر رہے ہیں۔ بجٹ سے قبل علی امین گنڈاپور کو بانی سے ملاقات کے لیے جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں ہونے والے پارٹی کے احتجاج میں سب نے کوشش کی، لیکن پنجاب نکلے گا تب ہی عمران خان رہا ہوں گے۔ میری تجویز ہے کہ احتجاج کے لیے اسلام آباد کا رخ کرنے کے بجائے پورے ملک میں لوگوں کو نکالا جائے۔
علی محمد خان نے حکومت سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ہر صورت ہونے چاہئیں اور اس کا راستہ بنایا جائے۔ جیل میں عمران خان سے ہر صورت ملاقات کر کے انہیں مذاکرات پر آمادہ کیا جائے۔ سیاسی قیادت سے بات کر کے بانی پی ٹی آئی سے فوری رابطہ بحال کیا جائے۔ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر ہمارے بھائی ہیں، انہیں کھل کر فیصلے کرنے ہوں گے۔
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی نثار جٹ نے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور اور پارٹی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ مجھ سے ملاقات کریں تو کیوں نہیں کی گئی۔ بجٹ پاس کرنے سے قبل عمران خان سے ملاقات کا انتظار کر لیا جاتا۔
نثار جٹ کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان اور پارٹی ارکان کے جو بیانات سامنے آ رہے ہیں، اس سے پارٹی میں اختلافات واضح ہو رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی خاتون رکن قومی اسمبلی اور سرگرم رہنما زرتاج گل نے نثار جٹ کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور کی بطور وزیراعلیٰ تعریف کی۔
زرتاج گل نے کہا کہ کل عمران خان نے احتجاج کا کہا ہے، ہمیں اس بارے سوچنا ہوگا۔ ہر شخص اپنے ضلع اور تحصیل میں احتجاج کرے۔ جہاں تک بات ہے کہ حکومت سے مذاکرات کی تو اس کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے جس کے ناموں کی منظوری بانی پی ٹی آئی سے لی جائے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت ہماری پارٹی قیادت کو ناکام اور بُرا کہا جا رہا ہے۔ ہمارے ممبران کو صرف نا اہل ہی نہیں کیا جا رہا ہے، بلکہ انہیں دس، دس سال کی سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔
کرک سے منتخب پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی شاہد خٹک نے اجلاس میں جارحانہ گفتگو کرتے ہوئے ہمیں بتایا جائے کہ ہماری پارٹی کے فیصلے کون کر رہا ہے؟ جب پولیٹیکل کمیٹی نے بجٹ پاس کرنے کا فیصلہ کیا تو سلمان اکرم راجا نے ٹویٹ کیوں کیا؟
شاہد خٹک نے جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے ارکان اسمبلی اور کارکنوں کو غدار کہا اور آپ سب ارکان خاموش رہے۔ ہم 2008 سے ساتھ ہیں اور اپنوں کو ہی غدار کہا گیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک دوسرے کو غدار کہنے کے بجائے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو جیل سے نکالنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اڈیالہ جیل کے سامنے جا کر احتجاج کرنا ہے، تو پارٹی قیادت واضح بتائے۔
پی ٹی آئی پارلیمانی اجلاس سے قبل پارٹی رہنما ایک دوسرے پر پھٹ پڑے، کس نے کس پر کیا الزام لگایا؟
واضح رہے کہ اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر سمیت دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے واضح کیا کہ پارٹی بانی پی ٹی آئی کی قیادت میں متحد ہے۔
علی امین نے کے پی حکومت گرانے سے متعلق خبروں پر کہا کہ آئینی طریقہ سے ہماری حکومت نہیں گرائی جا سکتی۔ انہوں نے مخالفین کو چیلنج دیا کہ اگر گرا دی تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔
کے پی حکومت گرائی تو سیاست چھوڑ دوں گا، وزیر اعلیٰ کا مخالفین کو چیلنج