یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 53 ہزار چھوٹے بچے پانی کی بیماریوں سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ پینے کے صاف پانی میں آلودگی کی وجہ سے کئی طرح کی بیماریاں شامل ہیں جن میں معدے، جگر، گردے کی بیماریاں سرفہرست ہیں۔ پاکستان میں 80 فی صد عوام مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں۔
بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں کے مطابق ملک بھر میں صرف 20 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا ہے، جب کہ 70 سے 80 فی صد پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے، پانی میں مضر صحت اجزا میں سرفہرست سیوریج کا پانی اور کارخانوں سے کیمیکل کا اخراج اور کھیتوں سے کیمیائی کھاد شدہ پانی کا اخراج ہے، جو پینے کے پانی میں شامل ہو جاتا ہے۔ پانی کو مضر صحت بنانے میں دیگر عوامل میں گرین ہاؤس گیسیں، پانی میں شامل مختلف بیماریاں اور حفظان صحت کی کمی کا شمار کیا جاتا ہے۔
آلودہ پانی سے بیماریاں
ملک بھر کے 24 اضلاع میں موجود 2 ہزار 807 دیہات سے جمع کیے جانے والے پانی کے نمونوں میں سے 69 سے 82 فی صد نمونے آلودہ اور مضر صحت پائے گئے۔ ملک بھر میں گندے پانی سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کی وجہ سے سالانہ 112 ارب روپے علاج معالجہ پر خرچ کیا جاتا ہے، پاکستان کے صرف 15 فی صد شہری اور 18 فی صد دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔
پی سی آر ڈبلیو کے مطابق پانی میں موجود آلودگی اور مضر صحت دھاتیں پیچش، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ وغیرہ جیسی بیماریوں کی اہم ترین وجہ ہیں۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ پاکستان میں تا حال کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی مہیا کرنے کی اتھارٹی رکھتا ہو۔
نمونوں کی جانچ
’’پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘‘ کی نگرانی میں ملک بھر کے 24 اضلاع اور 2807 دیہات سے اکٹھے کیے گئے پانی کے نمونوں میں انکشاف ہوا ہے کہ 62 سے 82 فیصد پینے کا پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ پانی کے اکثر نمونے بیکٹیریا، آرسینک (سنکھیا)، نائٹریٹ اور دیگر خطرناک دھاتوں سے آلودہ تھے۔
پاکستان میں پانی کی آلودگی کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ شہروں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کی صرف 8 فی صد مقدار اور صنعتی آلودہ پانی کی محض ایک فی صد مقدار کو ہی ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ یہی پانی ہمارے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا ہے جو انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے لوگ ہیضہ، دست اور کئی دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور آلودگی سے پاک پانی کی فراہمی کو یقینی بنا کر لوگوں کو ایسی بیماریوں کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
پانی سے متعلق ورلڈ بینک کیا کہتا ہے؟
ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ پانی کی کمی والے ممالک میں شامل ہے، جہاں صرف 6 دیگر ممالک اس سے بھی زیادہ شدید پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ اپنی بڑی آبادی کی وجہ سے – جو کہ دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے – پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی نسبتاً کم ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1951 میں 5,260 مکعب میٹر تھی جو حالیہ برسوں میں کم ہو کر تقریباً 1,000 مکعب میٹر رہ گئی ہے، جو کہ صورت حال کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔
کرایوں میں اضافہ اور پولیس کو رشوت، بس اڈوں پر سب ہی پریشان، ویڈیو رپورٹ
یہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ ملک تیزی سے ’’پانی کی کمی کی لائن‘‘ کے قریب پہنچ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے تخمینے کے مطابق 2025 تک پاکستان شدید پانی کی قلت کے مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے، جہاں بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں ہوگا۔
پاکستان میں ہر سال 55,000 بچے مر جاتے ہیں
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً 60 فی صد آبادی کو محفوظ پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے، اور 30 فی صد بیماریوں اور 40 فی صد اموات ناقص پانی کے معیار کی وجہ سے ہیں۔ خواتین اور بچے خاص طور پر کمزور ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں صفائی ستھرائی کا نظام انتہائی ناکافی ہے اور زیادہ تر پانی کی فراہمی آلودہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے اندازے کے مطابق، پاکستان میں ہر سال 55,000 بچے، جن کی عمر 5 سال سے کم ہوتی ہے، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے اسہال، ہیضہ اور ٹائیفائیڈ کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔
پانی اتنا آلودہ کیوں ہے؟
ملک میں پانی کی آلودگی کی بلند سطح کے کئی عوامل ہیں، جن میں شہروں میں جامع سیوریج سسٹم کی کمی اور ناقص صفائی ستھرائی کے انفراسٹرکچر سے لے کر کچرا ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات، کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کا زیادہ استعمال، اور صنعتی فضلے کے غیر علاج شدہ اخراج شامل ہیں۔
پانی کے انتظام کے غیر مؤثر نظام بھی اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ دریائے سندھ سسٹم اتھارٹی (IRSA) کے مطابق، پاکستان کو ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی ملتا ہے لیکن وہ صرف 13.7 MAF ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح، ملک میں بارش کے زیادہ ہونے والے ادوار کے دوران پانی کو ذخیرہ کرنے کی خاطر مناسب ذخیرہ گاہوں کی بھی کمی ہے، جس کی وجہ سے مون سون کے موسموں میں کافی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ، قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلے پانی کی فراہمی کے نظام کو درہم برہم کر سکتے ہیں، جس سے آلودگی ہوتی ہے اور مسئلہ مزید شدت اختیار کرتا ہے۔ خاص طور پر ٹھہرا ہوا پانی مچھروں کی افزائش کے لیے بہترین جگہ فراہم کرتا ہے، جس کی وجہ سے ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھتا ہے۔
2022 کے سیلاب کے بعد ملک ایک ’’موت کی دوسری لہر اور تباہی‘‘ کی حالت میں داخل ہوا، کیونکہ ٹھہرے ہوئے پانی نے مچھروں کو افزائش اور متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کا وسیع موقع فراہم کیا۔ رپورٹ کیا گیا کہ سیلاب کے بعد ملک میں ملیریا کے کیسز کی تعداد چار گنا بڑھ گئی، جو 2021 میں 4 لاکھ کیسز سے بڑھ کر 2022 میں 16 لاکھ سے زیادہ کیسز تک پہنچ گئی۔
دریائے سندھ
پاکستان کا دریائے راوی دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ دریا ہے، جو دواسازی کی آلودگی سے متاثر ہے۔ تیزی سے بدلتا ہوا موسم اور گلیشیئرز کا پگھلنا بھی اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں، اور دریائے سندھ – جو کہ زراعت، صنعت اور گھریلو استعمال کے لیے ملک کا بنیادی پانی کا ذریعہ ہے – خاص طور پر خطرے میں ہے۔
یہ دریا زیادہ تر ہمالیائی گلیشیئرز سے پگھلے ہوئے پانی پر انحصار کرتا ہے۔ ’’نیچر‘‘ جریدے میں شائع ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق 1990 کی دہائی سے سندھ بیسن کے گلیشیئرز اوسطاً سالانہ تقریباً 20 سینٹی میٹر کے حساب سے اپنی کمیت کھو رہے ہیں۔ گلیشیئرز کی برف کے پگھلنے سے دریا کے نظام میں بہنے والے پانی کی مقدار گھٹ رہی ہے، جس سے نیچے کی جانب پانی کی دستیابی متاثر ہو رہی ہے۔
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (WWF) کی ایک رپورٹ میں ذکر ہے کہ گلیشیئرز کی پسپائی کے باعث آئندہ دہائیوں میں دریائے سندھ کے بہاؤ میں 40 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ یہ کمی زراعت کے لیے آبپاشی اور دیگر شعبوں میں پانی کی دستیابی کو متاثر کرتی ہے۔