تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

پاکستانی مصنف کے بیٹے ‌نے کتاب چُھونے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئے؟ دل چسپ واقعہ

عبدالمجید قریشی کے اردو ادب میں مقام اور ان کی خدمات کے ساتھ ان کا تعارف پڑھنے سے پہلے انہی کے قلم سے نکلا یہ دل چسپ واقعہ پڑھیے۔ یہ ان کی مقبول تصنیف ‘‘ کتابیں ہیں چمن اپنا’’ سے نقل کیا گیا ہے۔

شرارت سبھی بچے کرتے ہیں۔ میرے بچے بھی۔ گھر کی مختلف چیزیں گاہ بہ گاہ ان کی شرارتوں کا نشانہ بنتی رہتی ہیں، لیکن جہاں تک میری کتابوں کا تعلق ہے وہ بھی انھیں ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

بچھلے دنوں ایک دل چسپ واقعہ رونما ہوا۔ میں کھانا کھانے میں مصروف تھا کہ قریب ہی میز پر رکھی ہوئی کتاب نیچے گر گئی۔ میں نے اپنے بچے سے کہا کہ اسے اٹھا کر میز پر رکھ دو۔

بچہ دوڑ کر باہر نکل گیا۔ مجھے اس کی اس حرکت پر بڑا غصہ آیا۔ میں نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا کہاں جارہے ہو۔ بچے نے کہا، ‘‘ابھی آیا۔’’

دو چار منٹ بعد لڑکا واپس آگیا۔ وہ اپنے ہاتھ دھو کر آیا تھا اور تولیے سے پونچھ رہا تھا۔

میں نے دریافت کیا یہ کیا معاملہ ہے۔ کہنے لگا۔

‘‘میرے ہاتھ صاف نہیں تھے۔ ڈر تھا کہ کہیں یہ نئی کتاب میلی نہ ہو جائے۔ اس لیے ہاتھ دھو کر آیا ہوں، اب اٹھاتا ہوں۔’’ اس نے بڑی آہستگی سے کتاب کو اٹھا کر میز پر رکھ دیا۔

ایک اور موقعے پر جب میں ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔ میرا دوسرا بچہ آیا۔ میرے پاس کھڑے ہو کر کتاب کو دیکھا اور چلا گیا۔ کچھ دیر بعد آیا تو دونوں ہاتھوں پر صاف ستھرا تولیا پھیلایا ہوا تھا۔ کہنے لگا۔

‘‘تھوڑی دیر کے لیے یہ کتاب مجھے دے دیجیے، تولیے پر رکھ کے دیکھوں گا، میلا نہ ہونے دوں گا۔’’

عبدالمجید قریشی 1921 میں پیدا ہوئے۔ وطن مشرقی پنجاب تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور محکمۂ ڈاک میں ملازم ہوئے۔ مطالعے کے رسیا اور کتاب اندوز مشہور تھے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ مختلف موضوعات اور خاص طور پر فنونِ لطیفہ سے متعلق رسائل سے سجا رہا۔

خود بھی نثر نگار تھے اور نہایت لطیف و دل کش اسلوب کے حامل تھے۔ ان کے مضامین اس دور کے معیاری رسائل اور اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ وہ تین کتابوں کے مصنف ہیں جو ان کی زندگی میں شایع ہوئیں۔ سوانح عمری، آپ بیتی اور واقعات نگاری سے خاص شغف تھا۔ 2010 اس دنیا میں ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ ان کی عمرِ عزیز کے آخری ایّام ملتان میں گزرے۔

Comments

- Advertisement -