پیر, نومبر 18, 2024
اشتہار

مصروفیتیں مغربی، عادتیں بدستور مشرقی!

اشتہار

حیرت انگیز

عبد المجید سالک اردو زبان کے بڑے ادیب، شاعر، جیّد صحافی اور کالم نویس تھے جو اپنے دور کے مقبول اخبار ’زمیندار‘ کے مدیر رہے، تہذیبِ نسواں‌ اور پھول جیسے معتبر رسائل کی ادارت کی۔ سالک صاحب ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ ان کی نثر طنز و مزاح کے گلشن کا ایسا سدا بہار پھول ہے جس کی خوشبو آج بھی فکرِ انسان کو معطر رکھے ہوئے ہے۔ شوخی ان کا مزاج ہے اور ندرتِ خیال ان کے ذہن کی رفعت کا ثبوت۔

یہاں ہم عبدالمجید سالک کی بذلہ سنجی اور اپنے کام سے لگاؤ کی ایک مثال انہی کے اُس کالم سے پیش کررہے ہیں جو روزنامہ "انقلاب” میں "افکار و حوادث” کے نام سے سالک صاحب لکھا کرتے تھے۔ ان کا یہ کالم ہر خاص و عام میں‌ بہت مقبول تھا۔ عبدالمجید سالک اپنے اُن ملاقاتیوں سے بہت بیزار تھے جو ان کا وقت برباد کرتے اور گپیں ہانکنے کے لیے ان کے دفتر آجایا کرتے تھے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:

"ہندوستان عجب بدقسمت ملک ہے۔ اس کی مصروفیتیں تو روز بروز مغربی ہوتی چلی جا رہی ہیں لیکن عادتیں بدستور مشرقی ہیں۔ ہندوستانیوں نے اخبار نویسی مغرب سے سیکھی لیکن اخبار نویس کی مصروفیات کا اندازہ لگانے میں ہمیشہ مشرقیت کا ثبوت دیا۔ مدیر "افکار” بارہا لکھ چکا ہے کہ میں بے حد مصروف رہتا ہوں اس لئے ملاقات کرنے والے حضرات میری مجبوریوں کو مدنظر رکھ کر اپنی عادات میں اصلاح فرمائیں تاکہ مجھے مروّت کے مشرقی اصول کو خیرباد نہ کہنا پڑے لیکن ملاقاتی حضرات بدستور بے تکلفی پر عمل پیرا ہیں اور ایک دن آنے والا ہے جب مدیر "افکار” ہر شخص سے صاف کہہ دیا کرے گا کہ اب آپ تشریف لے جائیے۔”

- Advertisement -

"ان ملاقاتی حضرات میں مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ پہلی قسم تو ان زیرک و فہیم حضرات کی ہے جو کسی ضروری کام کے بغیر کبھی تشریف نہیں لاتے اور جب آتے ہیں فی الفور کام کی بات کہہ کر اس کا شافی جواب پا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی ایسے مہربانوں کی تعداد روز افزوں فرمائے۔”

"دوسری قسم ایسے حضرات کی ہے جو یوں تو کسی ضروری کام ہی کے سلسلے میں تشریف لاتے ہیں لیکن نہایت طویل مزاج پرسی اور ادھر ادھر کی غیر متعلق باتیں کرنے کے بعد حرفِ مطلب زبان پر لاتے ہیں۔ خاکسار فوراً ان کی بات کا جواب دے دیتا ہے، اس امید پر کہ شاید اس جواب کے بعد مخلصی کی صورت نکل آئے لیکن وہ حضرات جواب سننے کے بعد مطمئن ہو کر اور بھی زیادہ پاؤں پھیلا دیتے ہیں اور نہایت فراغت کے ساتھ دنیا جہان کے قصے، ادھر ادھر کی باتیں، واقعات پر تبصرہ اور حالات پر رائے زنی شروع کر دیتے ہیں اور خاکسار دل ہی دل میں اپنے وقت کے خون ہو جانے کا ماتم کرتا رہتا ہے۔”

"تیسری قسم بے انتہا تکلیف دہ ہے۔ ان حضرات کی تشریف آوری کا کوئی قطعی مقصد نہیں ہوتا۔ محض "نیاز حاصل کرنے” کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ حالانکہ اکثر حالت میں خاکسار کو ان کی خدمت میں اس سے پیشتر پچیس دفعہ نیاز حاصل کرنے کا شرف نصیب ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر "حصول نیاز” کی مدّت مختصر ہو تو خیر اسے بھی برداشت کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ حضرات نہایت ڈٹ کر بیٹھتے ہیں اور اس وقت اٹھتے ہیں جب ان کا اٹھنا میرے لئے بالکل مفید نہیں رہتا۔”

"خاکسار دن کے وقت تحریر کا کام نہیں کرتا کیونکہ تنہائی اور یک سوئی دن کے وقت بالکل مفقود ہوتی ہے۔ گرمی ہو یا جاڑا، بہار ہو یا خزاں، ہر روز رات کے دو بجے تک کام کرنا پڑتا ہے چونکہ اس وقت کوئی خلل انداز نہیں ہوتا اس لئے کام بہ سہولت ختم ہو جاتا ہے لیکن ایک چوتھی قسم کے خطرات ہیں جو خاکسار کے وقت پر شب خون مارنے سے بھی باز نہیں آتے۔”

"ایک صاحب کا ذکر ہے، آپ پچھلے دنوں رات کے بارہ بجے تشریف لے آئے۔ خاکسار نے متعجب ہو کر پوچھا: "حضرت اس وقت کہاں ؟” فرمانے لگے: "سینما دیکھ کر آیا تھا۔ سڑک پر آپ کے لیمپ کی روشنی دیکھی، جی میں کہا، چلو سالک صاحب سے تھوڑی دیر گپیں ہانکیں۔”

"لاحول ولا قوة الا باللہ۔ گپوں کے لئے کتنا موزوں وقت تلاش کیا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ نہایت مری ہوئی آواز سے کہا: "تشریف لے آئیے۔”

"آپ آکر بیٹھ گئے کچھ بات شروع کرنے والے ہی تھے کہ خاکسار نے چپ سادھ لی اور لکھنے میں مصروف ہو گیا۔ وہ خدا جانے کیا کچھ فرماتے رہے، کوئی لفظ خاکسار کی سمجھ میں آیا، کوئی نہ آیا، لیکن ایک مقررہ وقفہ سے "ہوں ہوں” برابر کرتا رہا تاکہ بالکل ہی بے مروّتی اور بدتمیزی ظاہر نہ ہو۔ اگر خاکسار کی جگہ کوئی اور شخص اور ان حضرت کی جگہ خاکسار ہوتا تو دوسرے شخص کو اس قدر مصروف دیکھ کر اور اس کی بے معنی ہوں "ہوں ہوں” سن کر پانچ منٹ بھی بیٹھنا گوارا نہ کرتا لیکن حضرتِ ممدوح کامل ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے اور جب تشریف لے گئے تو پانوں کی تھالی اور سگریٹ کی ڈبیا خاکسار کے دل کے طرح ویران پڑی تھی۔”

"دوسرے دن ایک مجلس میں ان حضرت سے ہمارا سامنا ہو گیا۔ آپ بے تکلفی سے فرمانے لگے: "رات تو آپ بے انتہا مصروف تھے۔” ایک بذلہ سنج دوست پاس کھڑے تھے، کہنے لگے: "جی ہاں عمر بھر میں سالک پر ایک ہی مصروفیت کی رات آئی ہے اور وہ شبِِ گزشتہ تھی۔” وہ حضرت کھسیانے ہو کر ہنسنے لگے۔ خاکسار نے موقع پا کر نہایت متانت سے منہ بنا کر کہا کہ: "مجھے کبھی غصہ نہیں آتا لیکن جو شخص رات کے وقت میرے کام میں خلل انداز ہو، اسے جان سے مار دینے کو جی چاہتا ہے۔ کیا کروں میری یہ خواہش بالکل اضطراری ہے۔ مجھے تو اس پر قابو نہیں لیکن احباب کو ضرور احتیاط کرنی چاہیے۔”

"وہ حضرت نہایت غور سے میری بات سنتے رہے پھر چپ چاپ ایک طرف چل دیے اور آج تک رات کے وقت کبھی تشریف نہیں لائے۔ جان کتنی عزیز شے ہے۔”

اردو کے اس ممتاز ادیب اور شاعر نے لاہور میں وفات پائی اور اسی شہر کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں