ممتاز ماہرِ تعلیم اور عوام میں صوبہ سرحد کے سرسّید مشہور ہونے والے صاحب زادہ عبدالقیوم خان 4 دسمبر 1937ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔
صاحب زادہ عبدالقیوم خان 1864ء میں ضلع صوابی کے ایک گاؤں ٹوپی کے مشہور لودھی پشتون خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام عبدالرؤف تھا جب کہ ان کی والدہ گاؤں کوٹھا کے ایک عالم فاضل شخصیت حضرت صاحب کی بیٹی تھیں۔
نواب سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان کا ایک حجرہ بھی آج ان کی یادگار کے طور پر اہمیت کا حامل ہے جہاں علمی مجالس اور سیاسی بیٹھک ہوا کرتی تھی، یہ قدیم حجرہ ایک شاہی مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور اس دور کی کئی سیاسی و غیر سیاسی شخصیات یہاں آتی رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حجرہ 1890 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس حجرے سے ملحق ایک مسجد 1930 میں تعمیر ہوئی تھی جہاں صاحبزادہ عبدالقیوم اور ان کے خاندان کے دیگر لوگ دفن ہیں۔اسلامیہ کالج کے طالب علم اور اساتذہ آج بھی صاحبزادہ عبدالقیوم خان کے مدفن پر حاضری دیتے ہیں اور ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں۔
تقسیمِ ہند سے قبل اس دور کے مسلمانوں کی ترقی اور خوش حالی کے لیے جہاں مسلمان اکابرین اور سیاسی و سماجی راہ نما حصولِ تعلیم پر زور دے رہے تھے، وہیں صاحب زادہ عبدالقیوم خان نے بھی سرحد کے مسلمانوں کے لیے تعلیم کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے عملی قدم اٹھایا اور پشاور میں اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی جسے آج جامعہ کا درجہ حاصل ہے۔ صاحب زادہ عبدالقیوم خان نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی اور پولیٹیکل ایجنٹ رہے۔ اس کے ساتھ تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی کوششیں جاری رہیں اور 1912ء میں انھوں نے اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی۔
تقسیم سے قبل صاحبزادہ عبدالقیوم خان کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو وہ ہندوستان کی مرکزی مجلسِ قانون ساز کے رکن رہے اور 1930 ء سے 1932ء کے دوران لندن میں گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ برطانوی راج میں اس وقت کی حکومت نے صاحب زادہ عبدالقیوم خان کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خان بہادر، نواب اور سَر کے خطابات کے علاوہ قیصرِ ہند گولڈ میڈل بھی دیا۔ وہ صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بھی رہے۔