تازہ ترین

نیپرا کا بجلی مزید مہنگی کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد: نیپرا نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد...

’دنیا بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی نسل کشی پر خاموش نہ رہے‘

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ...

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے سعودی وفد کی ملاقات

راولپنڈی : آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے...

ورلڈ کپ کے لیے قومی کرکٹ ٹیم کا اعلان

آئندہ ماہ بھارت میں شروع ہونے والے آئی سی...

نگران وزیراعظم آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے

نیویارک : نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ آج اقوام متحدہ...

یومِ وفات:‌ صرف ایک مزاحیہ مکالمہ افتخار قیصر کی ملک گیر شہرت کا سبب بن گیا

افتخار قیصر کا یہ مکالمہ ‘اب میں‌ بولوں کہ نہ بولوں‌’ آپ کی سماعتوں میں بھی محفوظ ہو گا۔ وہ صدارتی ایوارڈ یافتہ فن کار تھے اور انھیں ایک اداکار ہی نہیں شاعر اور ادیب کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ 2017 میں افتخار قیصر آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

افتخار قیصر مزاحیہ انداز میں‌ ادا کیے گئے اپنے مکالمے کی بدولت پی ٹی وی کے ناظرین میں مقبول ہوئے۔ افتخار قیصر نے فن کی دنیا کو اپنی زندگی کے تقریباً 40 سال دیے۔ وہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے فن کار تھے جنھوں نے مقامی زبان میں پروگرام سے اپنا کریئر شروع کیا تھا۔

افتخار قیصر کم عمری میں ‘نندارہ’ کے عنوان سے پروگرام کا حصّہ بنے اور اس کے بعد ٹیلی ویژن پر پشاور سینٹر کے ہندکو زبان میں‌ پروگرام ‘دیکھتا جاندارہ’ میں اپنی مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کو محظوظ کیا۔ افتخار قیصر ایک ایسے مزاحیہ اداکار تھے جس نے صرف ایک مکالمہ ادا کرکے پاکستان بھر میں لوگوں کو متوجہ کرلیا۔ اسی مکالمے پر اردو میں ایک ٹی وی پروگرام کا آغاز بھی کیا گیا جو بہت مقبول ہوا۔ اس پروگرام ‘اب میں بولوں کہ نہ بولوں’ کے تمام مکالمے وہ خود لکھا کرتے تھے اور یہ طنز و مزاح پر مبنی پروگرام تھا۔

افتخار قیصر کی زندگی کے آخری ایّام نہایت کسمپرسی اور تکلیف میں بسر ہوئے۔ انھیں ذیابیطس کا مرض اور بلڈ پریشر کی شکایت تھی اور موت سے چند روز قبل برین ہیمرج بھی ہوا تھا۔ فن کار افتخار قیصر کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ اردو، پشتو، ہندکو، فارسی، پنجابی، سرائیکی اور پوٹھوہاری جانتے تھے۔

Comments

- Advertisement -