افغان طالبان نے خواتین کے حقوق سلب کرتے ہوئے ان پر تعلیم سمیت زندگی کے مختلف امور میں پابندی عائد کردی، تعلیم پرپابندی سے دس لاکھ سے زیادہ افغان لڑکیاں متاثرہوئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق خواتین پرتعلیمی پابندیوں کےحوالےسےافغانستان دنیاکاواحد ملک بن گیا ، افغان طالبان نےافغانستان پرقبضے کے بعد روایتی اندازاپنایا اور خواتین کےحقوق سلب،تعلیم اورر زندگی کےمختلف امورمیں پابندی لگادی۔
معاشی مسائل سے دو چارافغانستان کی خواتین تعلیم حاصل نہیں کرسکتی نہ ہی معاشی حالات کی بہتری کیلئے کوئی کام کرسکتیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اسکول جانےکی عمرمیں80فیصدافغان لڑکیاں تعلیم سےمحروم ہیں جبکہ یونیسیف رپورٹ کےمطابق تعلیم پرپابندی سے10لاکھ سےزیادہ افغان لڑکیاں متاثرہیں۔
الجزیرہ رپورٹ میں بتایا کہ طالبان کے اقتدارمیں خواتین کے مستقبل پرسوالیہ نشان لگ گیا اور تعلیم پر پابندی سے شعبہ صحت کی تعلیم سے منسلک افغان خواتین کا مستقبل سوالیہ نشان بن گیا۔
الجزیرہ کا کہنا تھا کہ پابندی سے پہلے ہی میڈیکل کی فارغ التحصیل 3 ہزار خواتین کو بورڈ امتحانات سے روکاگیا، سخت فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب افغانستان میں پہلے ہی خواتین طبی عملے کی شدید کمی ہے۔
افغان طالبان کے قبضے کے بعد سے خواتین تعلیم کیساتھ بنیادی انسانی حقوق سےبھی محروم ہیں جبکہ افغانستان میں 1964 کے آئین کے تحت خواتین کو باضابطہ طور پر برابری ملی۔
ملک میں خانہ جنگی، پھر طالبان قبضے کے بعد خواتین سے متعلق آئینی شقیں کہیں نظر نہیں آتی، طالبان کے قبضے سے قبل افغانستان میں بڑی تعداد میں خواتین اساتذہ تھیں۔
خواتین کی ملازمتوں پرپابندی سےاساتذہ کی تعدادمیں واضح کمی آئی ، جس سے تعلیمی شعبہ بری طرح متاثرہوا۔
افغان طالبان کے قبضے سے قبل افغان خواتین کو زندگی کے تمام امورمیں نمائندگی تھی جبکہ افغان خواتین کو حکومت میں وزارتیں،شعبہ طب میں خدمات، کھیلوں میں نمائندگی حاصل تھی۔
افغان طالبان نے لڑکیوں کو اسکول کیساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے بھی روک دیا، بیوٹی سیلون جہاں افغان خواتین روزگار کما رہی تھیں انہیں بند کر دیا گیا جبکہ افغان طالبان نے خواتین کےسفر پر بھی پابندی عائد کردی۔